وکٹر جارا، اکتارے اور بندوق کی جنگ – مشتاق علی شان

448

وکٹر جارا، اکتارے اور بندوق کی جنگ

تحریر: مشتاق علی شان

دی بلوچستان پوسٹ

11ستمبر 1973 چلی کے افق پر فوجی آمریت کے امڈتے مہیب سائے ۔۔۔۔ جنگی طیاروں کی قصرِ صدارت پر ہولناک پروازیں۔۔۔ سڑکوں پر فوجی ٹینک رواں دواں ۔۔۔ شاہراؤں پر بوٹوں کی چاپ ۔۔۔۔ بندوق بدست سپاہیوں کا گشت۔۔۔ چلی کے گماشتہ سرمایہ دار طبقے، زر خرید سیاست دانوں، ضمیر فروش صحافیوں اور نام نہادٹریڈ یونینسٹوں کے لبوں پر پنوشے کے نغمے ۔۔۔۔ وہی جنرل آگستو پنوشے جسے محض 19دن قبل فوج کا سربراہ مقرر کیا گیا ہے ۔ امریکی آشیرباد سے جمہوریت پر شب خون مارنے والا جنرل پنوشے منتخب صدر سلوا دور الاندے سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ سلوا دور الاندے جو تین سال قبل ہونے والے انتخابات میں منتخب ہوا ہے اور اس کا تعلق بائیں بازو کے متحدہ محاذ سے ہے ۔ اس کے جرائم کی ایک طویل فہرست ہے ۔امیر وغریب کے درمیان برزخ جیسی خلیج ختم کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات، معدنیات کے ذخائر اور زراعت سے امریکا کی اجارہ دار کمپنیوں ’’کیٹن کوپر کارپوریشن ‘‘ اور ’’ انا کونڈا ‘‘کا قبضہ ختم کرنے کا بیڑا اٹھانا، کوئلے ، تانبے اور فولاد کی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے کر اس کا ثمر محنت کشوں تک پہنچانے کی سعی اور زرعی اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے جاگیریں غریب اور بے زمین کسانوں میں بانٹنا، بچوں کی طبی امداد اور مفت تعلیم کا پروگرام بنانا۔ سرد جنگ کے عروج کا زمانہ اور الاندے کا چلی کو خطے میں ایک اور کیوبا بنانے کا ارادہ! اس سے بڑا جرم اور کیا ہو سکتا ہے؟

اسی جرم کی سزا دینے کے لیے آج سان تیاگو میں ایک حشر بپا ہے جسے امریکی حکمرانوں نے CIAکے ساتھ مل کر ڈیزائن کیا گیا ہے اور چلی کے فسطائی جنرل آگستو پنوشے کی مدد سے اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا گیاہے ۔ اس کے لیے لاکھوں ڈالرز تقسیم کیے گئے ہیں اور چلی میں اسلحے کا ڈھیر لگا ہے۔

الاندے ڈٹ جاتا ہے اور اس کے ساتھ ہی جنگی طیارے قصرِ صدارت پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ ریڈیو سے صدر الاندے کی آواز ابھرتی ہے، محنت کش عوام سے اس کی زندگی کا آخری خطاب ’’ آپ نے اپنے ووٹ کے ذریعے مجھ پر اعتماد کیا تھا، سو آپ کا ووٹ میرے پاس امانت ہے جس کی لاج میں اپنی جان دے کر رکھوں گا۔ یہ لوگ ہمیں ختم کر سکتے ہیں لیکن سیاسی عمل کو طاقت کے ذریعے نہیں دبایا جاسکتا۔ سماجی تبدیلی کے عمل کو اس طرح جرم کے ذریعے نہیں روکا جاسکتا ۔ ان لوگوں کافیصلہ تاریخ کرے گی۔ تاریخ جسے عوام بناتے ہیں۔‘‘سلوادور الاندے اپنے درجن بھر ساتھیوں اور محض دو بندوقوں کے ساتھ پنوشے کے ٹینکوں اور آگ اگلتے طیاروں کا مقابلہ کرنے کے لیے صدارتی محل سے نکل آتا ہے۔ سلوا دور الاندے دنیا کا واحد سربراہِ مملکت جو بندوق بدست رزم گاہ میں کام آتا ہے۔

منظر بدلتا ہے۔۔۔۔۔ جنرل پنوشے مسند اقتدارپربراجمان ہے ۔۔۔۔۔ چلی کے دارالحکومت سان تیاگو کا باکسنگ اسٹیڈیم ۔۔۔۔ پانچ ہزار سیاسی مخالفین ۔۔۔۔۔۔۔ بندوقوں کا کڑا پہرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان پانچ ہزار قیدیوں میں وکٹر جارا بھی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاتھوں میں اکتارا لیے کامریڈ وکٹر جارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

چلی کی کمیونسٹ پارٹی کا رکن، الاندے کی پالیسیوں کا پرجوش حامی، چلی کا ممتاز انقلابی شاعر، نغمہ نگار اور موسیقار جس کے نغمے اور دھنیں محنت کش عوام کے لیے ہیں۔ جس کا معروف گیت ’’ ہم جیتیں گے‘‘ ایک نئے سویرے کی نوید ہے۔ وکٹر جارا پنوشے کے سپاہیوں کا خاص ہدف ہے۔ پنوشے کے فوجی وکٹر جارا کو گھسیٹتے ہوئے لاتے ہیں، اس کا اکتارا، اس کا گٹار چھین لیا جاتا ہے۔ فوجی قہقہوں کی گونج میں بندوق کے بٹوں سے اس کی انگلیاں کچل دی جاتی ہیں۔ طبقاتی جدوجہد کی تاریخ پر وارد وکٹر جارا کے لیے کچھ بھی غیر متوقع نہیں ، کیوںکہ وہ جانتا ہے کہ انقلابی آدرشوں پر یقین رکھنے والوں کی زندگیوں میں ایسے مراحل آتے ہیں۔ وہ اپنے قاتلوں سے زندگی کی بھیک نہیں مانگ رہا کیونکہ وہ اس خطے سے تعلق رکھتا ہے جس نے جوزے مارتی ، ساندنیستو، زپاتا اور پانچو ویلا سے لے کر چے گویرا جیسے سورماپیدا کیے ہیں ۔ باوردی غنڈے وکٹر جارا کا مذاق اڑا رہے ہیں ، اس کی تذلیل کر رہے ہیں، ان کا سرغنہ وکٹر جارا کا گٹار اس کے سامنے پھینکتے ہوئے کہتا ہے ’ بڑا آیا انقلابی گیت گانے والا، لے سنبھال اپنا اکتارا گا اپنا انقلابی گیت !‘۔ زخموں سے نڈھال جواں ہمت وکٹر جارا لڑکھڑاتے قدموں سے اپنے گٹار ، اپنے اکتارے کی جانب بڑھتاہے ۔ وکٹر جاراکے ٹنڈ ہاتھوں میں گٹار ہے ۔ وہ جانتا ہے کہ یہ اکتارے اور بندوق کی جنگ ہے ، اکتارا جو زندگی کی نئی دھنوں کا ترجمان ہے اوراس کے مقابل جو بندوق ہے یہ سرمایہ دارانہ فسطائیت کی علامت ہے جسے کرہ ارض کی سفاک ترین قوت کی تائید حاصل ہے ، وہی قوت جسے جنوبی امریکا کے باشندوں نے ’’یانکی سامراج‘‘ کا نام دیا ہے۔ یہ ایسی جنگ ہے جس میں ضروری نہیں کہ مرنے والا شکست خوردہ اور زندہ رہنے والا فاتح ٹہرے۔ سو اسی تیقن کے ساتھ وکٹر جارا کا اکتارا بجنے لگتا ہے، خوں آلود گٹارسے انقلابی دھنیں ابھرنے لگتی ہیں۔وکٹر جارا کے لبوں پر انقلاب کا گیت ہے
’’ ہم جیتیں گے‘‘:
میرا راگ نہیں ہے درباری
کیوں دھن کی تال پہ رقص کروں
میرے گیت میں کل کی آشا ہے
میری تان میں جھانجھ ستاروں کی
میں آخری پل تک جنگ کروں میرے سارے سُر سچے نکلیں۔

باوردی غنڈے آپے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ وکٹر جارا کو بدترین تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور پھر گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں وکٹر جارا کی تان ٹوٹ جاتی ہے اور اس کا بے جان جسم زمین پر گرتا ہے۔ کچھ دیر بعد اس کی لاش سان تیاگو کی ایک گلی میں اچھال دی جاتی ہے ۔ یہ 15ستمبر1973کا دن ہے۔

منظر بدلتا ہے ۔۔۔۔۔ چلی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ انقلابی شاعر پابلو نرودا کے قریبی ساتھی اور رفقاء مارے جاچکے ہیں۔۔۔۔۔ وکٹر جارا کے قتل کے محض آٹھ دن بعد۔۔۔۔ 23ستمبرکو 69سالہ پابلو نرودا کی میت اس کے گھر سے اٹھائی جا رہی ہے ۔۔۔۔۔۔ وہاں کئی انچ پانی کھڑا ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کتب خانے سے دھواں اٹھ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔ پابلو نرودا کی موت طبی نہیں ہے بلکہ انھیں زہردیا گیا ہے۔

چلی پر تاریکیاں مسلط ہیں ۔۔۔۔ پنوشے کی فسطائی آمریت میں سیاسی جماعتوں پر پابندی ہے، بائیں بازو کی ٹریڈ یونینز، صٖحافیوں، شاعرں ، ادیبوں ، دانشوروں کو کچل کر رکھ دیاگیا ہے، ہر قسم کی آزادی سلب ہے اور جو مخالف بھی اس کے ہتھے چڑھتا ہے اسے پیس کر سرمہ بنا دیا جاتا ہے، ہزاروں سیاسی کارکن ہمیشہ کے لیے غائب کر دیے گئے ہیں ۔ دریاؤں میں تیرتی لاشیں اور اجتماعی قبریں معمول کی باتیں ہیں۔ پنوشے نے چلی کو امریکا کا فوجی اڈہ اور کھلی منڈی بنا دیاہے۔ امریکا اور اس کے ہمکاروں کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ کتنے لوگ مارے یا غائب کیے جا رہے ہیں ، انسانی حقوق کی کون سی بدترین خلاف ورزیاں کی جا رہی ہیں ۔ انھیں تو بس یہ اطمینان ہے کہ اشتراکیت کا خطرہ ٹل گیا ہے، ان کی کمپنیوں کے مفادات کو تحفظ فراہم کر دیا گیا ہے اورانھیں لوٹ کھسوٹ کی کھلی چھوٹ مل گئی ہے۔

منظر بدلتا ہے ۔۔۔۔۔۔ 1988کے ریفرنڈم میں تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود پنوشے کی شکست ۔۔۔ لیکن 1990تک اقتدار کا بلاشرکت غیرے مالک ۔۔۔۔۔۔۔۔ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد بھی فوج کا سپاہ سالار اورملک کی نومنتخب پارلیمنٹ کا تاحیات سنیٹر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہسپانوی وکلاء کے دباؤ پر1998میں علاج کے لیے برطانیہ میں مقیم پنوشے کی گرفتاری ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی مقدمہ نہیں۔۔۔۔ برطانوی ہائی کورٹ کا پنوشے کی رہائی کا حکم۔۔۔۔وجہ؟۔۔ اس کے جرائم میں امریکی صدر نکسن سے لے کر برطانوی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر تک کی شمولیت۔ 2003جنرل پنوشے کی زندگی میں ہی چلی اسٹیڈیم کووکٹر جارا کی یاد میں ’’وکٹر جارا اسٹیڈیم ‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔ اب وکٹر جارا کی باری ہے۔۔۔۔۔

10دسمبر 2006۔۔۔ پنوشے کی موت ۔۔۔ لاش جلانے کے بعد راکھ دریا برد کی جا رہی ہے ۔۔۔۔ وجہ ؟۔۔۔۔ جنرل پنوشے کی وصیت، اس خوف کی غمازی کہ چلی کے عوام اس کی لاش اور قبر تک کو نہیں بخشیں گے۔

اکتارے اور بندوق کی جنگ جاری ہے ۔۔۔۔ 2009۔۔۔ چلی کے حکام وکٹر جارا کی باقیات حاصل کرتے ہیں ۔۔۔۔ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ۔۔۔۔۔۔ تیس سے زائد گولیاں ماری گئیں۔۔۔۔۔ اپنی موت کے 36 سال بعدکامریڈ وکٹر جارا ایک فاتحانہ شان سے سان تیاگو میں داخل ہورہا ہے۔۔۔۔ اس کے کامریڈ ہزاروں سرخ پرچموں کی سلامی میں اس کی تدفین کررہے ہیں ۔ کامریڈوکٹر جارا کا اکتارا جیت گیا ہے اور جنرل پنوشے کی بندوق کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔