میں ہوں حیات بلوچ – سلام بلوچ

494

میں ہوں حیات بلوچ

تحریر: سلام بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

آو میری فریاد سنو!
میں علم کا شمع اٹھائے جہالت کی تاریکیوں کو مٹانے نکلا تھا۔ میرے والدین کے آنکھوں میں ہزاروں خواب گلدستے کی طرح سجے ہوئے، میرے مستقبل کے منتظر تھے. اسی امید کے ساتھ کہ بیٹا کل کو ہمیں اس مشکل و کٹھن بھری زندگی سے نجات دلائیگا۔

میں کراچی یونیورسٹی میں شعبہ فزیالوجی کا طالب علم تھا۔ میں جامعہ میں اپنے نصابی سرگرمیوں میں مصروف تھا کہ عالمی وباء کرونا نے میری تقدیر میں گولیوں کی ہلاکت خیزی لکھ دی کہ میں گھر آیا۔

ارے بھائی! میں باغیچے میں اپنے والدین کا ہاتھ بٹا رہا تھا۔ میں اپنے والدین کے ساتھ محو گفتگو تھا۔ مگر عقابی آنکھوں کو یہ منظر پسند نہیں آیا۔ اور عقابی پنجوں نے مجھے والدین سے چھین کر گھسیٹتے ہوئے سڑک کے کنارے میرے ہاتھ باندھ کر مجھے گولیوں سے چھلنی کرکے موت کے گھاٹ اتاردیا۔

ارے ظالمو!
مجھے مرنے کیلئے تڑپنے کی اجازت تو دیتے۔ میرے ہاتھ بندھے ہیں اور میری لاش سے بہتا خون سڑک کی گرمی کو بجھا رہا ہے۔ میری ماں میرے آنکھوں کے سامنے تڑپ رہی ہے، میرے ابا عقابی درندوں کے سامنے مجبور، بے بس، اور لاچار ہیں۔ اور میری اسٹوڈنٹ آئی ڈی کارڈ خون کے آنسو بہارہا ہے۔ اتنے میں میری آنکھیں بند ہوجاتی ہیں۔

کیا میری قتل کو آپکے اخباروں میں رقم کرنے کیلئے کوئی جگہ نہیں تھی؟
کیا پنجاب کے گٹروں میں گرتے گدھوں کی ویڈیوز آپکے چینلز پہ خبریں نہیں بنتے؟
کیا سینیٹ میں شیخ رشید کا پاوں کا اٹکنا آپکے لیے خبر نہیں بنتی؟

14اگست کی خوشیوں کے سلسلے میں آپ کے بچوں کے ہاتھوں میں جھنڈے تھے، مگر میری بہن کے ہاتھوں میں خون سے ٹپکتے میرے کپڑے تھے۔ آپکے کیلئے آتش بازیوں کی وجہ سے آسمان جگمگا رہا تھا۔ مگر میرے گھر پہ تاریکیاں نازل ہورہی تھی۔۔۔

یاد رکھیں! خون ارزاں نہیں ہوتا، خون ہوا میں جذب ہوکر بے نشاں نہیں ہوتا۔ خون احساس بن کر عمر بھر تڑپا دیتا ہے۔ خون سیلاب بن کر سب کچھ بہالےجاتا ہے۔ خون بادل بن کر خوب برستا ہے۔ لہٰذا خون کا پاس رکھیں، خون کا حساب دیں۔ ورنہ کفارہ بہت مہنگا پڑیگا.

ٹوٹے اور بنجر گھر میں تڑپتی زندہ لاش میری ماں کو کب انصاف ملےگی؟
کب اسکی امیدیں بھر آئینگی؟
میری موت پہ مرحہ کرنے والوں آو میری فریاد بنو۔۔۔
مجھے اس لیے ماراگیا کہ میں بلوچ ہوں اور بلوچ کا بے نشاں ہو کے مرنا معمول بن چکا ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔