غلام نبی راہی، وہ جب یاد آئے بہت یاد آئے
منظور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اگر محلے میں کبھی کبھار ایک آدھ بار کوئی لڑائی ہوتی، نوجوان دو فریقوں میں بٹ جاتے۔ کلپ، ڈنڈا جیسے ہتھیاروں کا استعمال کرتے تو پورے علاقے پر یاسیت سی چھا جاتی، لوگ سہمے سہمے اور ڈرے ڈرے نظر آتے۔
پورا شہر چند بدمعاشوں کے درمیان گھرا ہوا تھا لیکن بات یہ کچھ عجیب سی تھی کہ لوگ اُن سے لگاؤرکھتے تھے اور اس کا اظہار بھی کرتے۔ ہر علاقے کا ہر بڑا غنڈہ جب اپنے محلے میں آتا تو اس کی آنکھیں نیچی ہو جاتی تھیں وہ اپنے گلی کوچوں میں کسی پر بھی ہاتھ نہیں اٹھاتا تھا۔ یہ بڑے غنڈے جب بزرگ ریشوں سے ملتے تو ان کا رشتہ احترام کا ہوتا، نہ علاقے کا بوڑھا اس کو کوئی نصیحت کرتا، اور نہ ہی ’بدمعاش‘ بات کو آگے بڑھاتا۔ چپکے سے سر جھکائے چلا جاتا۔ اگر کبھی کبھار پتنگ بازی کرتے ہوئے بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑتے اور چھری چل جاتی۔ کوئی مر جاتا، تب تو پوری بستی سوگوار ہو جاتی۔ بچے سہم کر دیگر سے قبل ہی گھروں کو پہنچ جاتے۔
شام کو جب ہمسائے کی خواتین آتیں تو ان کی روزانہ کی ان مجلسوں میں عجیب و غریب باتیں ھوتیں۔ بلاؤں کے تذکرے ہوتے، کوئی کہتا کہ کوئی ”خون خوار یا آدم“ علاقے میں آیا۔ اس نے پرسوں کسی آدمی کا قتل کر ڈالا، بچے اور سہم جاتے۔ لیکن گفتگو کا نہ صرف سلسلہ جاری رہتا بلکہ بچے ڈر کے مارے اور غور سے سننے لگتے، کوئی دت، مما کی باتیں کرتا، گویا وہ بستی میں داخل ہو چکا ہے۔ ان بلاؤں کا کام یہ ہوتا کہ جب دیگر اور شام کے بعد سنسنانی چھا جاتی تو یہ بلائیں عورت کے لباس میں، کسی اور بہروپ میں یا سرتاپا سفید کپڑوں میں ملبوس ہوتیں، اور آوازیں لگاتیں، وہ اکیلے راہگیر کو اس کے نام سے پکارتیں تھیں، اگر راہگیر رک جاتا، تو اس کے قدم وہیں جم جاتے اگر وہ پیچھے مڑ کر دیکھتا تو وہیں کھڑے کھڑے بُت بن جاتا۔
باخبر خواتین بتاتیں کہ فلاں ہمسائے کے گھر کے قریب درخت ’کُبین‘ یعنی بھاری مطلب یہ کہ مشکل جگہ ہے۔ وہاں بچوں کو شام کے وقت جانے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ اگر کسی کے پاؤں تلے اس جن کے بچے روندھے جاتے تو وہ بہت شدت کے ساتھ بدلہ لیتا۔
کوئی چلتن کے پیچھے آنے والی بلاؤں کا نقشہ ابھارتی، کوئی عجیب و غریب الخلقت مخلوق کی ذکر کرتا۔ سننے والی عورتیں ان باتوں کو بڑی سنجیدگی سے سنتیں،اور ان پر عمل کروانے کیلئے بچوں کو ڈانٹتی تھیں۔ نوجوانوں کے جھگڑوں کے دو بڑے اسباب تھے،ایک فٹ بال میچ کے میدان تماشایوں کا آپس میں لڑ پڑنا یا سینما گھروں میں رش لینے والی فلم کیلئے ٹکٹوں کیلئے قطار میں کوئی اپنی باری سے پہلے گھسنے کی کوشش کرتا، تو مکا بازی ہو جاتی ورنہ دیگر قسم کے جرائم سے علاقہ پاک تھا۔
ہمارے سامنے کی روایت ہے کہ دفتر میں ایک شخص داخل ہوتا ہے وہ اسی دفتر کے ملازم کو آنکھیں دکھاتے یا گالیاں دیتا ہے اور دھمکانے والا بھی کوئی اور نہیں اسی دفتری کا بہنوئی ہوتاہے۔ لیکن دفتر کے انچارج سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہوتا وہ ملاقاتی کو ایسے دے مارتا ہے کہ اس کے منہ اور ناک سے خون بہہ نکلتا ہے۔
ایسا ہی تھا ہمارا کوئٹہ یہ کل کی بات ہے، پہلی بار اسی کے عشرے میں ہزارہ برادری اور پولیس کا معاملہ ہوا، فوراً والدین اسکولو ں کو پہنچ گئے، چھٹی کی گھنٹی لگائی گئی۔ شام کو ہی کرفیو لگ چکا تھا، شہر کے ہر محلے، کوچے میں لوگ تھڑوں پر بیٹھے ایسے تبصرے کرتے کہ رونگھٹے کھڑے ہو جاتے۔
ایک اور کرفیو بلوچ اور پشتون ٹرانسپورٹرز کے درمیان جھگڑے میں ایک دو ہلاکتوں کی صورت میں ہوا، فوراً علاقے میں کرفیو نافذ کر دیا گیا۔
ایک بار کوئٹہ شہر کی میئر شپ اور ایک مرتبہ بلوچ، پشتون تصادم کے نتیجے میں انسانی جانوں کے ضیاع پر کرفیو لگے۔
لیکن بھلا ان سب باتوں سے غلام نبی راہی کا کیا تعلق بنتا ہے۔ شاید بہت سے لوگوں کیلئے نہیں بنتا ہوگا، لیکن میرے لئے بنتا ہے اس لئے کہ درج بالا واقعات و حالات اسی اور نوے کی دہائی کے ہیں۔ جب میں اسکول کے زمانے کے دوران ہی ریڈیو کوئٹہ سینٹر سے وابستہ ہو چکا تھا، اس کے بعد صحافت کی دنیا اور پھر ایک لمبی مسافت۔۔۔۔۔
ایک طرف تو ایک پُر امن، دیو مالائی کوئٹہ تھا جہاں کے غنڈوں سے عوام کا رومانس بھی چلتا تھا۔ دیومالائی شال سے لیکر آج کے زخم زخم کوئٹہ تک کا یہ سفر صرف چند عشروں کی ہی تو بات ہے۔
غلام نبی راہی سے آشنائی میری ایک انسان سے تھی۔ وہ فرشتہ تھا، سب ہی اس کا احترام کرتے تھے۔ ان کے ساتھ ریڈیو سینٹر کوئٹہ میں پشتو زبان کے پروڈیوسر ابوالخیر ژلاند کے مطابق راہی صاحب کو پہلا ہارٹ اٹیک اس وقت ہوا جب وہ دوران ڈیوٹی آتے ہوئے حبیب نالے کے قریب غریب، میلے کچیلے بچوں کو رات کا سوکھا،سڑا ہوا، کچروں کے درمیان خوراک کھاتے ہوا دیکھا تھا۔
اتنا حساس انسان میں نے کبھی اپنی زندگی میں نہیں دیکھا۔ ایک مرتبہ وہ واش روم جا کر آنسوؤں کے ساتھ رویا تھا۔ رونے کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ریڈیو کے اسٹیشن ڈائریکٹر بشیر بلوچ تھے، ان کا بڑا رعب اور دبدبہ تھا، ان کے سامنے کسی کو بات کرنے کی جرات نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی سخت گیر ایڈمنسٹریٹر تھے۔ انگلش زبان پر ان کو خاصی حد تک عبور حاصل تھا۔
ہوا یہ تھا کہ ایک بچہ جس کا نام ناصر مینگل ہے (اب نہ جانے کہاں اور کس حال میں ہے) نے بشیر بلوچ کے ساتھ بہت اعتماداور انگریزی میں گفتگو کی تھی۔ جس نے راہی صاحب کو عجیب قسم کی خوشی اور سرور میں مبتلا کر دیا تھا ان کا کہنا تھا کہ ہمارے بچوں میں اتنا ٹیلنٹ بھی ہو سکتا ہے وہ اس ٹیلنٹ پر نازاں تھے کہ اچانک ان کی نگاہیں ناصر کی آستینوں پر پڑیں، جو پھٹی ہوئی تھیں۔ راہی صاحب بہت جذباتی ہوگئے تھے، اس سے قبل کہ وہ وہیں محفل میں رو پڑتے اور اس سے ان کے مطابق ناصر کی خودداری کو ٹھیس لگ سکتی تھی۔ اس لئے وہ واش روم میں جا کر روئے تھے۔
وہ سب کے یار دلدار تھے۔ چپڑاسیوں سے لے کر آرٹسٹ، رائٹر سبھی سے ان کا یارانہ تھا۔ وہ ایک دل نواز شخصیت کے مالک تھے۔ جب کوئی چپڑاسی ان پر کوئی فقرہ چست کرتا (جسے ہم براہوئی میں ٹوک کہتے ہیں) تو وہ خوشی خوشی بچوں کی طرح براہوئی سیکشن میں آتے اور قہقہہ لگا کر اس چپڑاسی کے چست فقرے کو سراہتے تھے اور پھر قہقہے۔
کیفے صادق ان کا ٹھکانہ تھا، غضب کے مجلسی آدمی تھے، سکندر خان ان کا سب سے گہرا دوست تھا ۔ جو چھوٹے سے قد کاتھا۔ قرہ قلی پہنتا تھا۔ کلی اسماعیل کا لانگو تھا۔ اس کا اپنا ایک طرز گفتگو تھا۔ گوکہ ذہنی، علمی سطح پر دونوں بہت الگ الگ تھے۔ راہی صاحب مطالعہ کرنے والے شخص تھے۔ جبکہ سکندر خان کو کتابوں سے کوئی یارانہ نہ تھا۔ اس کے باوجود ایسی مثالی دوستی میں نے کہیں نہیں دیکھی۔
راہی صاحب خود لطیفہ سناتے ہیں کہ رمضان کے دن تھے، وہ روزہ نہیں رکھتے تھے وہ اور ان کا ایک دوست ان کے گھر ٹین ٹاون میں بیٹھے ایک پلیٹ میں رکھے انگوروں سے شغف فرمارہے تھے کہ سکندر خان آ پہنچے، سکندر خان روزے سے تھے۔ بہر حال کسی نہ کسی طرح سے ان کو روزہ توڑنے پر مجبور کیا۔ مسئلہ یہ تھا کہ انگور کا دانہ بھی ایک بچا تھا لیکن راہی صاحب نے کہا کہ سکندر خان شہر میں بہت ٹھکانے ہیں تم یہ انگور کھا لو، چلتے ہیں۔ سکندر خان باتوں میں آچکا تھا۔ انگور کے ایک دانے سے روزہ توڑا اور تینوں دوست چل پڑے۔ پہلے غالباً اسٹیشن گئے، پتہ چلا کہ وہاں چھاپہ پڑا ہے، ہوٹل بند ہے شہر میں ایک دو اور ٹھکانے بھی تھے جبکہ سکندر خان انگور کے ایک دانے پر روزہ تڑوائے جانے پر راستے بھر میں جی بھر کہ ان کو گالیاں دیتے رہے۔
ایک روز ریڈیو میں براہوئی سیکشن میں بہت سارے لوگ بیٹھے تھے کہ رفیق شاد نے ریڈیو اور ٹی وی کے مختلف شخصیات کی نقلیں اتارنا شروع کر دیں۔ جس پر محفل زعفران بن گئی۔ اس دوران اچانک قہقہے لگاتے ہوئے راہی صاحب نے کہا کہ بچو! اس کا مطلب یہ کہ تم میری نقل بھی اتارتے ہو، رفیق شاد نے کہا سر آپ محترم ہیں، طرح طرح کی وضاحتیں پیش کرکے جان چھڑانا چاہتے تھے۔ ان کو اپنی غلطی کا بھی احساس ہو چکا تھا۔ لیکن بات آگے بڑھ چکی تھی۔ راہی صاحب کے اصرار پر انہوں نے واقعتاً راہی صاحب کی ہو بہو نقل اتاری۔ انھی کی طرح دانتوں میں ماچس کی تیلی ڈال کر انھی کی آواز میں بات کرتے رہے یہ دیکھ کر راہی صاحب اتنے ہنسے کہ ان کی آنکھوں میں آنکھوں میں آنسو آگئے۔ رفیق شاد خوش بھی، تھوڑی سی خجالت بھی تھی۔ لیکن راہی صاحب کی جانب سے طے پایا کہ اب تمہارا جرمانہ یہی ہے کہ جب میری فرمائش ہوگی تو تم میری اسی طرح نقل اتارو گے۔
تو ایسے تھے ہمارے راہی صاحب۔
ان کو کبھی کسی نے غصے میں نہیں دیکھا تھا۔ ایک مرتبہ واقعی میں ان کو غصہ آگیا تھا۔ واقعہ یہ تھا کہ پاکستانی مزاج کے مطابق کوئی واقعہ ہونے کی صورت میں سیکیورٹی سخت کی جاتی ہے۔ تلاشیوں اور ناکوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ پھر مدہم پڑ جاتا ہے اسی طرح ریڈیو کے اسٹوڈیو کی صورت بھی تھی۔ قانونی طور پر اسٹوڈیو میں وہی شخص داخل ہو سکتا تھا کہ جس کا پروگرام نشر ہونا ہوتا۔ اس مقصد کیلئے اس کو متعلقہ پروڈیوسر کی جانب سے کاغذ کی ایک پرچی پر اس کا نام لکھ کر دستخط کرکے اس کو دیا جاتا تھا۔ جسے گیٹ پاس کہا جاتا تھا۔ اسٹوڈیو کے گیٹ کیپر کو اسٹوڈیو کمشنر کہا جاتا تھا، تاہم وہ ہوتا چپڑاسی تھا۔ اسٹوڈیو کمشنر کی حیثیت سے براہوئی زبان بولنے والا ایک شخص پائند خان بڑا سخت واقع ہوا تھا۔ اسی روز کسی وجہ سے گیٹ پاس کے بغیر اسٹوڈیو میں جانے کی اجازت بہت سخت کر دی گئی تھی۔ عمومی طور پر لوگ گیٹ پاس کے بغیر بھی اناؤنسر، کمپئر وغیرہ جایا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات کاغذ کا بنا ہوا گیٹ پاس خراب ہو جاتا یا گم ہو جاتا۔ تو کچھ دشواری پیش آتی۔
جب پائند خان نے بحیثیت اسٹوڈیو کمشنر گیٹ پاس کے ایک نیوز براڈ کاسٹر کو جو پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھا، جانے کی اجازت نہیں دی۔ تو وہ ڈاکٹر آگ بگولا ہو گیا تھا اور کہا تھا کہ تم چپڑاسی کی یہ اوقات کہ تم ایک ڈاکٹر کو جسے تم جانتے بھی ہو، اسٹوڈیو جانے انکار کر رہے ہو۔ یہی بات تھی کہ جس پر راہی صاحب بہت غصے میں آگئے تھے ان کا کہنا تھا کہ کیا ہوا اگر تم ڈاکٹر ہوئے۔ کیا وہ چپڑاسی انسان نہیں۔ کیا اس کی عزت نفس نہیں۔ تم کو چانس ملنے کی صورت میں یہ عہدہ ملا اور پائند خان کو مواقع نہیں ملے، اس پر تم اس کو ڈانٹ رہے ہو۔ راہی صاحب کا کہنا تھا کہ ایسے لوگوں کو پروگرام نہیں دینے چاہیے۔
وہ احترام آدمیت پر عقیدے کی حد تک یقین رکھتے تھے۔ ورنہ اس زمانے کے پروڈیوسر سے ملنا، بات کرنا ہر ہما شما کی بات نہ تھی۔ لوگ ان کی چمچہ گری کرتے تھے۔
مجھے یہاں اردو کے ایک شاعر کا واقعہ یاد آ رہا ہے جس کے نام کے ساتھ ہاشمی لگا ہوا تھا اس کی سوانح پڑھی تو احمد ندیم قاسمی کے حوالے سے انہوں نے لکھا تھا کہ ایک دن وہ اپنے اسلام آباد کے ایک پروڈیوسر دوست کو ان کے پاس ملاقات کیلئے لے گئے تھے تعارف سے قبل قاسمی صاحب نے کسی خاص پرجوشی کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن جونہی انہیں معلوم ہوا کہ فلاں صاحب تو ٹی وی پروڈیوسر ہیں۔ پھر کیا تھا کہ ان کی مسکراہٹ بھی نمودار ہوگئی فوری طور پر انہوں نے اپنے نئے مہمان کو اپنی کتابوں کا تحفہ بھی پیش کیا۔ لکھنے والا لکھتا ہے کہ وہ قاسمی صاحب کے شاگردان عزیز میں سے تھے لیکن کبھی ان کو ایک کتاب بھی ان کی تحفے میں نہیں ملی۔
اس زمانے میں جب پروڈیوسر کی طوطی بولتا تھا راہی صاحب کو اس قسم کا کوئی عارضہ لاحق نہیں تھا۔ وہ اپنے عہدے کی اہمیت کا کبھی بھی اظہار نہیں کیا۔ ان میں کوئی مصنوعی اخلاقیات پیدا نہیں ہوئیں۔ ان کا مسکرانا بھی اوریجنل تھا ان کا قہقہہ اور ان کی گفتگو بھی اوریجنل تھی۔
راہی صاحب پچاس سال کی عمر میں چل بسے۔ ایک ایسے حساس شخص کا ایک وحشی معاشرے میں پچاس سال زندہ رہنا کوئی انہونی بات نہیں۔ گوکہ وہ زمانہ آج کے حالات سے ہزاروں سال بہتر تھا لیکن منافق لوگ اس وقت بھی تھے۔ مظلوم اور کسی کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے والوں کی اس وقت بھی کوئی کمی نہیں تھی۔ ہر پروڈیوسر ایک فرعون نظر آتا تھا، جس کے سامنے آرٹسٹ بیچارے کپکپاتے۔ بعض تو آرٹسٹوں کیلئے غلیظ لفظ بھی استعمال کرتے تھے۔
کل کا میرا شہر، جس میں آج کے حالات کا تصور تک نہیں تھا۔ اس زمانے میں بھی سر کٹے تھے، آدم خور تھے، دت تھے، مما اور جن بھی تھے۔ وہ آدمی کا خون بھی پی جاتے تھے، لیکن یہ سب ایک خیالی دنیا میں ہوتا تھا۔ حقیقت اس طرح نہ تھی۔ یہ تو میرا اپنا زمانہ ہے جسے میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا۔ انہی دیومالائی کرداروں کے بیچوں بیچ ھماری نشوونما ہوئی۔
لیکن آج کوئٹہ میں سرکٹے بھی ہیں، آدم خور بھی ہیں۔ ایک بم پھاڑ کر دو سو تین سو لاشیں گرائے جانے کے واقعات اب اتنی بھی اہمیت نہیں رکھتے، جو اسی اور نوے کے عشرے میں کوئٹہ میں ایک چھوٹی سی لڑائی پر ہوا کرتے تھے۔
لوگوں کی وحشت کو کھلی چھوٹ مل گئی ہے، گھٹن، زیادتیوں، اظہار رائے پر پابندی سے ثقافتی گھٹن نے جنم لیا۔ زمینی حقائق کے نام پر نئے زمینی حقائق تخلیق کرکے کوئٹہ کے دیومالائی حسن کو خون سے لت پت کر دیا گیا۔
بظاہر کوئٹہ پر امن تھا لیکن اندر ہی اندر زیادتیوں کا لاوا بھی پل رہا تھا۔ بغض و عناد کے بیج بوئے جاچکے تھے۔ جن کو کاٹنا تھا۔ جو لوگ کل تک ان حقائق کی تخلیق کاروں کے بارے میں ایک لفظ سننے کو گوارہ نہ تھے، آج وہ رو رو کر، چیخ کر ان تخلیق کاروں کا نام لے رہے ہیں۔
لیکن راہی صاحب، آپ کیوں یاد آئے؟ اس لئے کہ جس شہر میں گھٹن کم ہونے کا نام نہیں لیتا، جہاں سر شام ہی وحشتوں کے پر کھل جاتے ہیں۔ آنے والی ہر خبر پاؤں کے نیچے سے زمین نکال لی جاتی ہے۔ جہاں ہر آدمی ایک انجانے خوف میں مبتلا ہے۔ اگر وہ چمچہ گری بھی کررہا ہے تو انجانے خوف کے اثر سے۔ وہ کسی اور حق دار کے حق کا خون کرنا چاہتا ہے، وہ بھی اسی انجانے ڈر کا شکار ہے۔
یہ انجانے خوف اب یہاں کے لوگوں کے روحوں میں بسیرا کر چکا ہے۔ کل بھی کچھ لوگ آنے والے حالات کو سمجھ نہیں پائے، اور آج بھی کچھ لوگ خوش فہمی کا شکار ہیں۔ سچ بولنے سے گریزاں ہیں۔ آپ جب تک سچ نہیں بولو گے ایک سچے انسانی معاشرے کی تشکیل نہیں ہو سکتی۔ جہاں بلا رنگ و نسل، ذات و منصب، زبان و عقیدہ کے سبھی کو یکساں انسانی حقوق حاصل ہوں۔ کوئی غیر حق دار کسی حق دار کے منصب پر قابض نہ ہو۔ جھوٹ کی فیکٹریوں کو ختم کر دیا جائے۔ دلیل کا مقابلہ دلیل سے کیا جائے نہ کہ کردار کشی کر کے۔ ٹیلنٹ کو دیکھ کر راہی جیسا خوشی کا جذبہ ہونا چاہیے۔ اس کے برعکس ٹیلنٹ کشی کا انجام ہمارے سامنے ہے۔
راہی صاحب! آپ کوئٹہ کے دیومالائی شہر کے ایک دیوتا تھے۔ آپ کا کردار بھی کچھ افسانوں سا لگتا ہے۔ اتنا پورا انسان نظر نہیں آیا۔ جہاں نظر ڈالئیے، بونے ہی بونے ہیں۔ جو دیوتا بننے کے چکر میں انسان کو انسانیت سمیت مار رہے ہیں لیکن کچھ غرض کے پجاریوں کی دولت کی ہوس ختم نہیں ہو رہی۔ یہ ہوس کے پجاری اب کرونا وائرس پر بھی کاروبار کریں گے۔
راہی صاحب!آپ پر بہت کچھ لکھنا ہے، جو آپ کا ادھار ہے لوٹانا ہے۔ ہم نے آپ کو بھلا کر اپنا ہی نقصان کر ڈالا۔ دھوکے، فریب، جھوٹ اور ڈھٹائی کے ساتھ جہالت کے ساتھ کھڑا ہونا اب ہماری پہچان بن چکی ہے، اچھا ہی ہوا کہ آپ بہت جلدی چلے گئے، ورنہ یہ آج کا معاشرہ اس میں تو آپ ایک سانس بھی نہیں لے پاتے۔
دوستوئفسکی کے ایڈیٹ ناول سے ماخوذ انڈین فلم ”یگ پرش“ کے کردار (جس کو فلم میں نانا پاٹیکر نے نبھایا ہے) کی طرح آپ بھی یا زندگی ہار بیٹھتے یا دوستوئفسکی کے تراشیدہ انسان کی طرح آپ کا مقدر بھی پاگل خانہ بنتا۔
جو معاشرہ آرٹ دشمن، موسیقی دشمن، مصوری دشمن، رقص دشمن ہو، جو بے ذوق ہو، ان کا معاشرہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ جو آج ہمارا معاشرہ ہے۔
جس معاشرے میں آرٹ جیسی لطیف شے بھی مارکیٹ کی جنس بن جائے، اس میں ہم جیسے شاید ڈھیٹ لوگ سروائیو کر جائیں آپ نہیں کر پاتے۔
راہی صاحب! آپ ہی نہیں، آپ کے دور کے خواتین نے جن خیالی بلاؤں کاذکر کیا تھا۔ ہم انھیں وہم سمجھ کر ایک عرصے تک ہنستے رہے، لیکن ہمارے نام نہاد دانش وروں، پروفیسروں، ادباء، شعراء کے مقابلے میں وہ شرک و پال کی شکار خواتین زیادہ ذہین نظر آتی ہیں، جنہوں نے ایک ایسی خیالی دنیا بنا کر جن آدم خوروں کی پیش گوئی کی تھی، وہ ساری پیش گوئیاں ان کے بیان کرنے والوں کے خواب و خیال سے زیادہ خوفناک اور خطرناک ثابت ہوئیں۔
لیکن اب اس شہر میں بم پھٹتے ہیں۔ لوگ بے حساب مارے جاتے ہیں، سڑکوں پر، ہسپتالوں میں۔ اس بے حس معاشرے میں میرا دیومالائی شہر کوئٹہ مجھے کوئی لوٹا نہیں سکتا۔ اس وقت تک جب تک مائیں راہی جیسے لوگ جنم نہیں دیتیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔