شاہینہ شاہین کے قاتلوں فوری گرفتاری کرکے قرار واقعی سزا دی جائے – ایچ آر سی پی تربت

165

ایچ آر سی پی ریجنل آفس تربت مکران کی پریس ریلیز میں شاہینہ شاہین کو ایک قومی سرمایہ قرار دے کر انہیں خراج تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہے، جبکہ اُن کے المناک قتل کو ایک قومی سانحہ اور قومی نقصان قرار دے کر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا گیا ہے اور قتل کی شدید مذمت کرتے ہوئے قاتلوں کی فوری گرفتاری اور قرار واقعی سزا کا پُرزور مطالبہ کیا گیا ہے.

بیان میں کہا گیا ہے کہ محترمہ شاہینہ شاہین ایک باکمال مصّورہ، ادیبہ، صحافی، انسانی حقوق کی کارکن اور خواتین تحریک کی کارکن تھیں، چاہیے تو یہ تھا کہ اُن کی تعریفیں کی جاتیں اور اُنہیں عزت، حیثیت، درجہ اور انعامات سے نوازا جاتا مگر بدقسمتی سے اُن کے جنونی شوہر اُن کی قدر و منزلت نہ جان سکے، جس کی بناء پر اکیلے یا کسی کے ساتھ مل کر اور امکان اغلب یہی ہے کہ اپنے کسی یارِ غار کے ساتھ مل کر اُنہیں وحشیانہ طور پر قتل کردیا، اور اپنے ساتھی سمیت فرار ہوگیا جس پر جتنے بھی دلی رنج و افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ محترمہ شاہینہ شاہین کی شہرت کی ابتدا اُس وقت ہوگئی، جب انہوں نے بعض ہم خیال خواتین کے ساتھ مل کر تربت میں ”دزگہار“ کے نام سے خواتین کی ایک تنظیم بنائی اور اُس کے پلیٹ فارم پر بہت سی تعلیم یافتہ اور قابل خواتین کو متحد کرکے خواتین کے مساویانہ حقوق کی تحریک چلائی اور اس مقصد کے لئے طرح طرح کے پروگرام منعقد کیئے اور ساتھ ہی ساتھ اس تحریک کو بہتر طورپر آگے بڑھانے کی خاطر تنظیم کے ترجمان کے طورپر ماہنامہ ”دزگہار“ کا اجراء بھی کیا جس میں لکھاری خواتین کی مختلف قسم کی تخلیقات شائع ہوتی رہیں۔

مزید کہا گیا کہ پھر انہوں نے کوئٹہ جاکر بلوچستان یونیورسٹی کے فائن آرٹ ڈیپارٹمنٹ میں داخلہ لیا اور فرسٹ ڈویژن اور فرسٹ پوزیشن میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کرلی، اسی دوران اُن کے آرٹ کی کئی نمائشیں بھی ہوئیں اور وہ پی ٹی وی بولان میں کام بھی کرنے لگیں اور اُس کی مارننگ ہوسٹ بھی رہیں۔

بیان میں کہا گیا کہ شاہینہ شاہین تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد جب تربت واپس ہوئیں، تو کئی آرٹسٹ خواتین و حضرات کے ساتھ مل کر ”مکران اکیڈمی آف آرٹس“ قائم کی اور خود اس کی چیئرپرسن منتخب ہوگئیں اور پھر اسی اکیڈمی کے زیرِ اہتمام انہوں نے تربت میں ایک چار روزہ تاریخی پروگرام منعقد کیا جس کے دو حصّے تھے، جن میں ٹریننگ ورکشاپ اور ایگزیبیشن کے حصّے شامل تھے، ٹریننگ ورکشاپ میں 15 لڑکوں اور 15 لڑکیوں کو پینٹنگ یا مصّوری کی تربیت دی گئی جبکہ ایگزیبیشن میں ورکشاپ کی بنائی گئی تصاویر کو دیکھنے کے لئے سجایا گیا، اس چار روزہ آرٹ پروگرام کو دیکھنے کے لئے سینکڑوں خواتین و حضرات گئے جن میں بلوچستان سطح کی بعض اہم ترین شخصیات بھی شامل تھیں۔

پریس ریلیز میں مزید کہا گیا ہے کہ شاہینہ شاہین کے مذکورہ کارناموں سے شاید بعض بدنیت اور بدطینت قسم کے عناصر گھبرا گئے، جنہوں نے ایک منصوبے کے تحت اُن کے شوہر محراب گچکی کو استعمال کرتے ہوئے راستے سے ہٹانے کے لئے اُنہیں قتل کروا دیا لہٰذا محترمہ شاہینہ شاہین کو اُن کے کارناموں کے لئے خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت پیش کی جاتی ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ شاہینہ شاہین کے قتل اور قاتلوں کی شدید مذمت کی جاتی ہے اور قاتلوں کی فوری گرفتاری اور قرار واقعی سزاؤں کا پُرزور مطالبہ کیا جاتا ہے۔

خیال رہے ہیومن رائیٹس کمیشن آف پاکستان ریجنل آفس تربت مکران کی جانب سے کوآرڈینیٹر غنی پرواز کی سربراہی میں ایک پانچ رکنی ٹیم کیجانب سے شاہی تمپ جاکر شاہینہ شاہین کے قتل پر اُن کی والدہ مہرنگ ماہیکان، ماموں امجد رحیم اور دیگر قریبی خواتین و حضرات سے تعزیت کی گئی۔