سہیل رضا بھٹی کی ماں کی خبر لو
محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
پانچ برس!
پانچ برس کہنے میں، لکھنے میں اور سننے میں بہت سہل ہیں
پر انہیں جھیلنا بہت دشوار!
اور ان پانچ برسوں میں اگر دُکھ، تکلیف اور انتظار ہو تو یہ پانچ برس نہیں پانچ صدیاں ہیں
اسے گم ہوئے پانچ سال بیتے ہیں اور ماں کو انتظاری کیفیت میں پانچ صدیاں گزری ہیں!
وہ ماں جس کی اب دید بھی دھندلا گئی ہے
وہ ماں جس کی مانگ بھی میلی ہو گئی ہے
وہ ماں جس کی آنکھوں میں اب سوائے انتظار کے کچھ نہیں
وہ ماں جس کی دید میں اب کوئی آنسو نہیں
وہ ماں جس کے سفید بال درد کی کیفیت میں سیاہ ہوگئے ہیں
وہ ماں جس سے اب اپنے گم شدہ بچے کی شکل بھی بھولی جا رہی ہے
وہ کبھی روتے میں اس کا نام کئی بار لیتی ہے
،،سہیل! سہیل! سہیل!
اور کبھی خاموشی میں اس کچھ یاد نہیں رہتا، وہ بہت کوشش کرتی ہے پر وہ نام یاد آتا ہی نہیں جس نام کو پہلے قومی لیڈروں نے بھولنے کی اداکاری کی۔ پھر اس کے کامریڈ دوست بھی وہ نام بھول گئے۔ پھر سندھی میڈیا اس کا نام بھول گیا اور پھر سندھ بھی اس کا نام بھول بیٹھا
پر وہ ماں اس کا نام کیسے بھولے؟
پر پانچ سالوں میں انسان سب کچھ بھولنے لگتا ہے
اگر وہ ماں نہ ہو تی تو شاید اس کے نین اس کے لیے اب نہ برستے۔ اس کے کان اب اس کا نام نہیں سنتے۔ اس کی آنکھیں اب اس کے لیے منتظر نہ ہو تیں۔ اور وہ زباں بھی وہ نام بھول ہی جاتی جو نام اب سوائے ماں کے کسی کو یاد نہیں!
نہ تاج جویو کو
نہ انعام عباسی کو
نہ تنویر آریجو کو
نہ سسئی لوہار کو
نہ
شازیہ چانڈیو کو
نہ وائیس آف سندھ مسنگ پرسن کو
نہ حیدر آباد کے باسٹرڈوں کو
نہ ہی کراچی کے ٹھگوں کو
نہ ان کو جو دکھوں میں بھی ناچنے کی اداکاری کرتے ہیں
اور نہ ان کو جو خوشی میں غمگین ہونے کا ڈرامہ رچاتے ہیں
وہ سب سندھ کے باسٹرڈ ہیں
وہ ماں نہیں! جس ماں کے بیٹے کو آنکھوں سے اُوجھل ہوئے پانچ برس ہونے کو ہیں، اگر ان پانچ برسوں کو ماں کی آنکھوں سے دیکھیں تو پانچ صدیاں معلوم ہوتی ہیں اور اگر ان پانچ برسوں کو دنوں میں ضرب کریں تواٹھارہ سو دن ہوتے ہیں۔ ایک ماں اپنے بیٹے کی جدائی میں اٹھارہ سو دنوں سے سفر میں ہے، جس ماں کا نہ تو سفر تمام ہوتا ہے اور نہ دکھ۔
یہ کیسی ریاست ہے، جس ریاست نے ایک مظلوم ماں کو مسافر بنا دیا ہے۔ وہ ماں جو کبھی اپنے گھر سے نہیں نکلی، آج وہی ماں اپنے سر پر میلی چادر لیئے لاڑکانہ سے حیدر آباد، اور حیدر آباد سے کراچی آتی ہے، پر اسے اپنا پنہوں نہیں ملتا۔ اس ماں کا سفر کا درد ان پیروں میں درج ہے جو پیر کسی قوم پرست کو نظر نہیں آتے، اس ماں کا دکھ اس کے چہرے پر نقش ہے پر اس چہرے کو کوئی نہیں پڑھتا۔
ایک ماں سوائے فریاد اور سفر کے کر بھی کیا سکتی ہے؟ سو وہ کررہی ہے
پر سندھ اور ہم بہت کچھ کرسکتے ہیں، پر ہم کچھ نہیں کررہے!
پانچ برس آساں نہیں ہو تے۔ درد کا ایک دن کیا درد کا تو لمحہ بھی درد سے لبریز ہوتا ہے
تو کون جان پائیگا کہ اس ماں نے درد کے پانچ برس کیسے بتائے ہونگے؟
پانچ برسوں میں کنواری لڑکیاں مائیں بن جاتی ہیں
گورے پستانوں میٹھے دودھ کی مہک سے بھر جاتے ہیں.
پہلی بار ماں بننے والی لڑکیاں اپنے گورے میٹھے پستان اپنے نوزائیدہ بچوں کے منہ میں دئے
اپنے محبوب کو یاد کرتی ہیں
چھوٹے بچے بڑے ہوجاتے ہیں
بڑے بچے سمجھدار ہو جاتے ہیں
جوان بوڑھے اور بوڑھے زیادہ بوڑھے ہو جاتے ہیں
قبروں سے تیزی سے خاک اُڑنے لگتی ہے
چاند پر گرہن اور سورج مٹیالہ ہوجاتا ہے
دھرتی اور اندر کو دہنس جاتی ہے
زیرِ زمین پانی اور نیچے ہو جاتا ہے
مائیں مر جاتی ہیں، ملنگ نئے آستانے بساتے ہیں، جوگی پرانے سانپ جنگلوں میں چھوڑ دیتے ہیں
ان کی پوٹلیوں میں وعدے کی طرح نئے سانپ آجاتے ہیں۔ کوئی پہلی بار سیکس سے متعارف ہوتا ہے۔ کوئی اپنی محبوبہ کے گالوں کی لذت پہلی بار محسوس کرتا ہے۔ درختوں پہ نئے پتے اور پھولوں میں نئے پھول کھلتے ہیں۔ خوبصورت دوشیزاؤں کی سیاہ زلفوں میں چاندی کے تار چمکنے لگتے ہیں۔ جوان ہو تی لڑکی کے پہلی بار مہاسے نکلتے ہیں۔ اس کے تازہ بدن میں جوانی کی نئی مہک بھر جاتی ہے۔ پہلی بار لڑکوں کے منہ پر بھورے بال اُگ آتے ہیں۔ پہلی بار ماں کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کی بیٹی میں کچھ تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ اور وہ ماں اسے معلوم کرتی ہے اور لڑکی اسے وہ سب کچھ بتا دیتی ہے جو اس پر پہلی بار بیتتی ہے۔
پانچ برس بہت ہو تے ہیں، پانچ برس مذاق نہیں۔ پر سہیل رضا بھٹی کو گم ہوئے پانچ برس ہونے کو ہیں اور سندھ اس کو بھول بیٹھا ہے!
پر وہ ماں اسے نہیں بھولی
اس ماں کی مانگ میلی صحیح
اس ماں کے پیر زخمی صحیح
اس ماں کی میلی چادر کا پرچم شکستہ صحیح
پر ماں اپنے بیٹے کو نہیں بھولی
اس ماں سے اپنا گھر بھول گیا ہے۔ گھر کی گلیاں بھول گئی ہیں۔ پر اس نے اپنے بیٹے کو یاس رکھا ہوا ہے
کیا سندھی قوم پرستوں میں اتنی غیرت ہے کہ وہ اس ماں کے پیر چوم لیں جن پیروں نے دکھوں کا کئی میل کا سفر طے کیا ہے پر منزل ابھی نہیں آئی اور وہ منزل کب آئیگی وہ ماں بھی نہیں جانتی
سندھ تو اس ماں کے گھائل پیر اپنی آنکھوں پر رکھ رہا ہے
اس ماں کے گیلے گالوں کو اپنے ہاتھوں سے صاف کر رہا ہے
اس ماں کی گرتی چادر کو سر پر رکھ رہا ہے
پر کیا سندھ کے قوم پرست لیڈر اس ماں کے پیروں کو اپنی آنکھوں پہ رکھیں گے
جو ماں سندھ جیسی ہے
جو ماں جند جیسی ہے!
،،اسد!شکوہ کفر و دعا نا سپاسی
ہجومِ تمنا سے لاچار ہیں ہم!،،
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔