درد کے دو سال – محمد خان داؤد

131

درد کے دو سال

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

ایاز کا یہ شعر بھی اس معنی میں کم پڑ جاتا ہے، جب کوئی ماں اپنے جواں سالہ بیٹے کی تصویر لیے در بدر رہتی ہے۔ ایاز کا یہ شعر جب بلکل ادھورا ادھورا سا معلوم ہوتا ہے جب کوئی ماں اپنے گم شدہ بیٹے کی پرانی تصویر اس لیے صاف کرتی رہتی ہے کہ اس تصویر میں موجود شخص واضح صاف دکھائی دے جب وہ کسی آتے جاتے سے پوچھے کہ کیا تم نے میرا بیٹا کہیں دیکھا ہے؟

ایاز کا شعر بہت اچھا ہو سکتا ہے۔ اس میں درد بھی سمایا ہوا ہے پر پھر بھی وہ شعر اس ماں کے درد کا درماں نہیں کر سکتا جو ماں گذشتہ دو سالوں سے اپنے گھر نہیں گئی۔ اب تو اس ماں کو اپنا گھر یاد نہیں۔ اب تو اس ماں کو اپنے گھر کا در بھی یاد نہیں۔ اب تو اس ماں کو اپنے گھر کی گلی بھی یاد نہیں۔ اسے یاد ہے تو بس وہ بیٹا جو آخری بار گھر سے نکلا پھر نہیں لوٹا۔

،،تو لاءِ تکیندے ڈیا اُجھانا
تون!چھو کون آئیں رات رانا؟!!،،
،،تجھے تکتے تکتے دئیے بجھ گئے
تم کیوں رات کو نہیں آئے دلبر؟!!،،

پر کیا اس ماں کا انتظار ایک رات کا ہے؟ کیا اس ماں کی آنکھوں نے انتظاری کیفیت ایک رات گزاری ہے؟ کیا اس ماں کا درد ایک رات کا ہے؟ کیا اس ماں کے آنسو ایک رات بہے ہیں؟ کیا اس ماں کی نیند ایک رات ماری گئی ہے؟ کیا وہ ماں بس ایک رات جا گی ہے؟ کیا اس ماں کارتجگا بس ایک رات کا ہے؟ کیا اس ماں کا دل رک رک کر چلنا اور چلتے چلتے رک جانا ایک رات کا ہے؟ کیا اس ماں کو نیند کا نہ آنا ایک رات کا ہے؟ کیا اس ماں کی منتظر دید در پر ایک رات کے لیے ٹہر سی گئی ہے؟ یا اس ماں کی مانگ ایک رات کے لیے میلی ہو ئی ہے؟ کیا وہ ماں اپنے بوڑھے ہاتھوں میں اپنے گم شدہ بیٹے کی تصویر لیے ایک دن روڈوں پہ رلنے کو نکلی ہے؟ کیا وہ ماں ایک رات کے لیے مسافر بنی ہے؟ کیا اس ماں کا درد ایک رات کے لیے ہے؟ کیا اس ماں کا دردوں کا سفر ایک رات کا ہے؟ کیا اس ماں نے بس ایک رات کے لیے ماتم کیا ہے؟ کیا اس ماں نے اپنے نصیب کو بس ایک رات کو کوسہ ہے؟ کیا اس ماں کے ہاتھوں میں اس پرانی تصویر کا درد بس ایک رات کے لیے ہے؟ کیا اس ماں کے پیر بس ایک رات کو دردوں کے سفر میں چلے ہیں؟ کیا اس ماں نے اپنے گم شدہ بیٹے کا ماتم بس ایک رات کیا ہے؟
کیا اس ماں کی آنکھیں بس ایک رات روئیں ہیں؟
کیا اس ماں نے خوف و حشت میں بس ایک رات بسر کی ہے؟
اس ماں کی ہر رات وحشت میں لپٹی ہوئی ہے، وہ ماں ہر وقت خوف میں ہے!
اس ماں کے دل پر ان گاڑیوں کے ہیوی ٹائر دوڑ جا تے ہیں جو گاڑی اس کے بیٹے کو لی گئی
اس ماں کے دل پر اب تک وہ لانگ شوز کی لات پڑتی محسوس ہو تی ہے جو اس کچے در پر لگی تھی جس در کے پیچے رلی کا پردہ ٹنگا ہوا تھا
کیا اس ماں پر بس ایک شام،شامِ غریباں گزری ہے؟
اس ماں کی تو ہر شام،شامِ غریباں ہے
کیا اس ماں کی ایک شام، شامِ شہیداں ہے؟
اس ماں کی ہر شام،شامِ شہیداں ہے!
وہ ماتم بھی کرتی ہے
وہ سینہ کوبی بھی کرتی ہے
وہ خدا کو بھی تکتی ہے
وہ آہ بھی کرتی ہے
پر مسافر نہیں لوٹتا
نہ درد کی رات ایک ہے، نہ اس ماں کو درد ایک ہے
وہ ماں دردکا دفتر نہیں
وہ ماں دردوں کی دنیا ہے
تو اس ماں کے درد کو ایاز کے اس شعر میں کیسے سماؤں؟
،،تو لاءِ تکیندے ڈیا اُجھانا
تون!چھو کون آئیں رات رانا؟!!،،
،،تجھے تکتے تکتے دئیے بجھ گئے
تم کیوں رات کو نہیں آئے دلبر؟!!،،

ویسے تو و ہ ماں اپنے بیٹے کو ہر وقت یاد کر رہی ہے پر جب وہ ماں کچھ دیر کی آنکھ لگی میں اپنے بیٹے کو دیکھتی ہے تو اس ماں کی حالت ایسی ہو جاتی ہے جس کے لیے لطیف نے فرمایا تھا کہ
،،رات بہ منھنجے روح
سجن پنھنجا ساریا!،،
،،رات بھی میری روح کو اپنے بہت یاد آئے!،،
تو وہ ماں بے چین سی ہو جاتی ہے۔

وہ ماں ایسی نہیں کہ نہ روئے، وہ ماں محبت میں کاروبار نہیں کرتی، وہ ماں محبت میں نفعہ،نقصان سے عاری ہے۔ وہ ماں کچھ نہیں جانتی۔ اس ماں کو کچھ خبر نہیں۔ وہ ماں سیاسی باتوں سے لاعلم ہے۔ وہ ماں سیاسی پارٹیوں کے پرچموں کے رنگوں سے بے خبر ہے۔ اس ماں نے کسی سیاسی پارٹی کا منشور نہیں لکھا۔ وہ ماں کسی پارٹی کے منشور سے نابلد ہے۔ وہ ماں کسی سیاسی لیڈر کے نام سے واقف نہیں۔ وہ ماں پڑھنا نہیں جانتی، وہ ماں تو بس درد سے واقف ہے، جسے درد بھی اس ریاست نے دیا ہے۔

وہ ماں تو غالب کے اس شعر سے بھی واقف نہیں جس شعر میں غالب دوستی کے زیاں کی بات کرتا ہے
اک ماں کی محبت کیا ہو تی ہے؟ بس زیاں ئی تو ہوتی ہے
ایک ماں کی محبت فتح نہیں ہوتی۔ اک ماں کی محبت ہاری تو ہوتی ہے
اور وہ ماں محبت میں ہاری ہو ئی ہے۔ اسی لیے تو تمام درد لیے مسافر بنی ہے
غالب نے کہا
،،فائدہ کیا،سوچ، آخر تو بھی دانا ہے اسد!
دوستی ناداں کی ہے، جی کا زیاں ہو جائے گا،،
وہ ماں بھی تو جی کا زیاں ہی تو کر بیٹھی ہے
دو سال
جی ہاں دو سال
درد کے دو سال
درد کے دو سال،خوشیوں کے دو سال نہیں ہو تے

یہ تو منتظر دید کے دو سال ہو تے ہیں۔ ماتم کے دو سال ہوتے ہیں۔ آنکھوں کے روزے کے دو سال ہو تے ہیں، اپنوں کو گلے سے نہ لگانے کے درد کے دو سال ہو تے ہیں۔ محبت میں چپکے چپکے آنسو بہانے کے دو سال ہو تے ہیں۔ بن منزل کے سفر کے دو سال ہو تے ہیں۔ درد کی مسافری کے دو سال ہوتے ہیں

عبدالروف کی ماں ان ہی دردوں کے دو سالوں میں جی رہی ہے
دل میں ٹھیس اُٹھنے کے دو سال
اشکوں کے بہتے رہنے کے دو سال
درد کے دوسال


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔