حسیبہ قمبرانی کے ہاتھوں میں درد کی دو کتابیں ہیں – محمد خان داؤد

412

حسیبہ قمبرانی کے ہاتھوں میں درد کی دو کتابیں ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

حسیبہ قمبرانی کئی دنوں سے ایک مندر بنی ہوئی ہے۔ اگر وہ مندر نہیں بھی ہے تو اس کا من ضرور مندر بنا ہوا ہے حالاںکہ حسیبہ آپ ایک مورتی جیسی ہے۔ معصوم معصوم پیاری پیا ری اسے خود کسی مندر میں ہونا چاہیے تھا جہاں لوگ آتے اور اس مو رتی کی آرتی اتارتے اگر وہ کسی مندر میں مورتی نہ بھی ہوتی تو اپنے گھر میں تو ضرور ہو تی۔ پر اس وقت حسیبہ قمبرانی نہ تو کسی مندر میں ہے اور نہ ہی کسی گھر میں، وہ اداس گرم فٹ پاتھ اور ویران ویران خالی سڑکوں پر ہے، جہاں پر کئی لوگ گزرتے ہیں اور رُک کر اس سے یہ بھی نہیں پوچھتے کہ،، بی بی کیا بات ہے؟،،

اور وہ گزرتے لوگوں کو بتا پاتی وہ غم وہ دکھ جو ابھی تک حسیبہ نے کسی کو بھی نہیں بتایا
وہ تو اب تک بس روئی ہے
وہ بھی تھوڑا تھوڑا
وہ تو کھل کر روئی بھی نہیں پر وہ اب تک جتنا بھی روئی ہے اس کا رونا دیکھ کر آکاش پر اُڑتے پنچھی بھی دھرتی پہ اتر آتے ہیں اور اپنی اپنی بولیوں میں اس معصوم سے کہتے ہیں
،،بس اب نہ رو تمہا رے رونے سے ہمارے پر مر جھاتے ہیں ہم اُڑ نہیں سکتے،،
پر پھر بھی ہم جیسے بے شرم حسیبہ کے باجوں سے گزرتے جاتے ہیں اور رُک کر اس سے یہ نہیں پو چھتے کہ
،،بی بی کیوں رو تی ہو؟!!،،
پھر وہ ہمیں ضرور بتا تی کہ وہ کیوں رو تی ہے
پر آج تک نہ تو ہم نے اس سے پوچھا ہے اور نہ ہی اس نے بتایا ہے
وہ تو بس اپنے کانپتے ہاتھوں میں اپنے پیاروں کی تصویریں لیے
کانپتے ہونٹوں سے روئی ہے
بہت کم بہت تھوڑا!

حسیبہ قمبرانی کے بہت کم رونے میں بھی اک قہر ہے
اگر وہ بہت روتی تو اس کا بہت رونا کون سے کان سنتے، کون سی آنکھیں دیکھتیں اور کون سے کیمروں کو اسے فلمایا جاتا؟ اور جب حسیبہ کے بہت سے رونے کو لوگ سنتے دیکھتے تو ان پر کیا قیامت گزرجاتی؟

حسیبہ اپنے بھائیوں کے بغیر کیسے جی رہی ہے اس کی جھلک ہم کوئٹہ میں اس کی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں، جب اس کے کانپتے ہاتھوں میں تھامی تصاویر اور کانپتے لبوں سے نکلتی آواز ہمارے کانوں سے گھس کر دل تک پہنچ رہی تھی تو ہم جان پائے تھے کہ درد کیا ہوتا ہے اور درد میں رونا کیا ہوتا ہے؟

ہم میں اتنی جرئت ہی نہیں کہ ہم حسیبہ کے غم کو کسی پیمانے میں ناپ سکیں
ہم تو اس کے پاس جاکر اس کی آنکھوں سے آنسو بھی نہیں پونچھ سکتے
کیوں؟
کیوںکہ ہم سینے میں ایک دل نہیں رکھتے۔ ہم سینے میں دل، منہ پہ رنگت اور چہرے کئی کئی رکھتے ہیں
تو ہمیں حسیبہ قمبرانی کے درد سے کیا واسطہ؟!

ہم منافق ہیں ہم تو حسیبہ کو دلاسہ بھی نہیں دے سکتے، جبکہ ہم سب کچھ جانتے بوجھتے ہیں
،،کیوں مری غمخواری کا تجھ کو آیا تھا خیال؟!،،
ہمیں تو اتنا بھی خیال نہیں آتا ہم تو اپنے حال میں مست ہیں
جب کہ حسیبہ کی اپنے بھائیوں کے بغیر زندگی ایسی ہو گئی ہے کہ
،،زہر لگتی ہے مجھے آب و ہوا زندگی
یعنی تجھ سے تھی اِسے ناساز گاری ہائے ہائے!،،
ہم نہیں جان پائیں گے۔ ہم کبھی نہیں جان پائینگے اس درد کو جو درد دل کو درد دیتا ہے
جو درد نیند کا قتل کرتا ہے
جو درد مسافر بنا دیتا ہے
جو درد مانگ کو سونا کر دیتا ہے
جو درد جلد بوڑھا کر دیتا ہے
جو درد آنکھوں کو آنسوؤں سے بھر دیتا ہے
جو درد رونے پر مجبور کرتا ہے
جو درد بالوں میں سفیدی اتار دیتی ہے
جو درد پیروں کو بہت چلاتا ہے بہت چلاتا ہے
جو درد پیروں کو تھکا دیتا ہے
جو درد پیروں کو چھالوں سے بھر دیتا ہے
جو درد پیروں میں پڑے پہنے جوتوں کو پھاڑ دیتا ہے
بن منزل کے مسافر بنا دیتا ہے
جو درد اک چیخ بن کر سینے میں ٹہر جاتا ہے
جو درد رتجگے دیتا ہے
جو درد،بس درد ہوتا ہے

ہم اس درد کو کبھی نہیں جان پائیں گے تمام مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور محبوبائیں اس وقت ایسے ہی درد سے گزر رہی ہیں اور حسیبہ قمبرانی اپنے دو بھائیوں کی گمشدگی پر ایسے ہی درد سے گزر رہی ہے۔
جس درد میں درد بہت ہے
جس درد میں کوئی بولی نہیں
حسیبہ تو روئی ہے پر اس کے رونے سے کچھ نہیں ہوتا
اس کے رونے سے کیوں کچھ نہیں ہوتا؟ اور اگر ہوگا تو کب ہوگا
اس کے رونے سے اس لیے کچھ نہیں ہوتا کیوںکہ ہم اس کے ساتھ نہیں
اس کے ساتھ تو بس درد ہے اور درد، درد ہی دیتا ہے درد کو بڑھاوا دیتا ہے
،،گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو!
کہے سے کچھ نہ ہوا، پھر کہو تو کیوں کر ہو!،،
حسیبہ قمبرانی کے درد کو کوئی نہیں دیکھ رہا، کوئی نہیں پڑھ رہا
حالاں کہ وہ درد ایسا نہیں کہ دیکھا نہ جائے یا پڑھا نہ جائے
وہ درد دیکھا بھی جاسکتا ہے وہ درد پڑھا بھی جا سکتا ہے
پر ہم ایسے منافق ہیں کہ ہمیں کسی اور کے درد سے واسطہ ہی نہیں
جب کہ ہمیں جاننا چاہیے کہ حسیبہ کے ہاتھوں میں تھامی دو تصویریں دو تصویریں نہیں وہ
درد کی دو کتابیں ہیں
اور ان دردوں کی کتابوں میں وہ سب کچھ درج ہے، جس کی بس تھوڑی سے جھلک حسیبہ نے ہمیں کچھ ماہ پہلے دکھائی تھی
ہم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ ہم ان دردوں کی دو کتابوں کے نام ہی پڑھ لیں جو اوپر اوپر ہی لکھے ہوئے ہیں کہ
،،محمد حسان قمبرانی
حزب اللہ قمبرانی!،،
باقی درد کی تحریریں تو بہت طویل ہوتی ہیں اور ان درد کی تحریروں کو کون پڑھتا ہے
،،تھک تھک کے ہر مقام پہ دوچار رہ گئے
تیرا پتا نہ پائیں تو لاچار کیا کریں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔