بنجرہریالی
تحریر: نگرہ بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
آج قلم ہاتھ میں پکڑا تو سوچنے لگی کہ آپ کو میں کیسے سمجھاسکتی ہوں۔۔۔ کاش تم میرے روزنامچے ہوتے کہ میں اپنے احساسات اور جذبات کو قلمبند کردیتی، کاش تمہیں یہ پتہ ہوتا کہ ان کہی اور ان سنی داستانوں کو کیسے سمجھا، سنا اور پڑھا جاسکتا ہے۔ کاش تمہیں پتہ ہوتا کہ تمہارے آنے سے دل کے سرزمین نے بہار کا جو موسم دیکھا کاش وہ صدیوں تک خزاں میں تبدیل نہ ہوتا۔ لیکن کیا کریں موسم انسانی فطرت کے مطابق نہیں چلتا بلکہ اسکی فطرت میں تبدیلی کا ایک لاوا ہمیشہ پکتا رہتا ہے۔
سن یار جب تم ساتھ تھے تو ہر طرف ہریالی ہی ہریالی تھی۔ پودوں کی نشوونما ء اور ان کا درختوں میں تبدیل ہونا تمہارے ساتھ کی وجہ سے ہی ممکن ہوئی۔
لیکن مجھے یہ بھی علم تھا کہ ایک دن موسم کا بدل جانا اٹل ہے خزاں کو دوبارہ نمودار ہونا ہے، کھیت اور کھلیانوں کو بنجر ہی ہونا ہے، گلستان میں ہریالی کے بعد بنجر ہونے کا منظر ایسا ہی ہے جیسے کسی زندہ انسان کو آگ میں جھونکنا۔
سنو! ایک دن جب میں دل کے باغیچے میں سستانے کے لئے آئی تو جو منظر دیکھا وہ نہایت ہی خوفناک تھا۔ پھول منہ موڑ رہے تھے لیکن جب میں نے معلوم کرنے کی کوشش کی تو روٹھے ہوئے پودوں نے قہر بھری نظروں سے مجھے دیکھا اور اشک بہانے لگے۔ میں نے انکی بہت منت سماجت کی کہ آخر راز کیا ہے تم کیوں روٹھی ہوئی ہو اسی اثناء گلستان میں آگ برسنے کا منظر دیکھا۔ آگ کی تپش سے جنگل لرزنے لگا سارے درخت انگارے برسانے لگے کہ وہاں رکنا محال بن گیا۔
میں کئی عرصوں سے خود سے بیگانہ بنی رہی لیکن کئی عرصوں بعد جب مجھے اپنا خیال آیا تو میں نے اپنا موازنہ جنگل کے درختوں سے کرنے کی کوشش کی اتنے میں آندھی اور طوفان کا ایک گرد آیا کہ میرے قدموں تلے زمین نکل گئی اور میں نے اپنی دھول کو ہوا میں اُڑتے دیکھا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔