بلوچ اور انکے مسائل
تحریر۔ عامر شبیر گچکی
دی بلوچستان پوسٹ
شعور ہی واحد ذریعہ ہے جو بلوچ قوم کو یکجا کرسکتی ہے- مختلف تحریکوں میں شعور ہی تھی جس کے ذریعے مختلف ممالک میں انقلابات برپا ہوئے، جس کی واضح مثال امریکہ میں برطانوی استعمار کے خلاف ایک مزاحمتی تحریک چلی جوکہ ;enlightenment سے ہوکر The Great Awakening” کے مراحل سے گزر کر لوگوں کو روشن خیالی کی جانب راغب کیا اور جس کی ابتدا :alamnas: کے ذریعے طبعی مشورہ دیتے ہوئے چلتا رہا اور اس عمل سے گزر کر بعد میں پمفلٹ کی شکل میں اپنے سیاسی معاشی اور سماجی حقوق کے بارے میں عوام الناس میں شعوری بیداری کرتے رہے اور آخر کار وہ جان گئے کہ وہ ایک الگ تشخص کے مالک ہیں اور ان سب نے اکھٹے ہوکر برطانوی راج سے چھٹکارا حاصل کرلی تھی۔
وہ آج 243 سالوں کے بعد اب اپنے آپ کو ایک مستحکم اور طاقتور قوم کے طور پر جانتے ہیں، مگر بدقسمتی سے جن بحرانوں سے بلوچ قوم گزر رہی ہے جن میں شخصیت پرستی تفریق پسندی، لسانی اور علاقائی امتیاز خوش آمدی اور مادیت یہ جملہِ مسائل کسی المیہ سے ہرگز کم نہیں ہیں، بلوچ قوم کو ایک ایسی سیاسی انجمن اور منظم پاکیزہ سیاسی کلچر کو اعانت کرنے کی ضرورت ہے جو آج ان تمام بحرانوں کے روک تھام کے لیے مفید اور مدد گار ثابت ہو، جن میں اول سے آخر تک کے مسائل درج ذیل ہیں۔
جبری گمشدگی، منشیات فروشی، اغواء برائے تاوان، مذہبی جنونیت بدعنوانی، لاقانونیت، ناخواندگی، قدرتی وسائل کی لوٹ کھسوٹ ، بوگس ڈومیسائل اور وہ تمام حربے جو بلوچ قوم کو انکے حقوق سے محروم رکھنا مقصود ہے، اور یہ ایک پیچیدہ طریقوں سے کئی دہائیوں سے استعمال زیر استعمال ہوتے رہے ہیں جن کا مقصد بلوچ قوم کو شعوری طور پر مفلوج اور اجتماعی طور پر پسماندہ کرنا ہے۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک انسانی اور سنگین معاملہ ہے اور یہ مطیع النساء کے ساتھ ساتھ ایک غیر اسلامی اور غیر شریعی نوعیت کا ہے۔ اور یہ شریعی اصولوں کے بالکل منافی ہے۔ اسلام کے ابتدائی دور میں جنگ بدر کے دوران کافر قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کا دامن نہ چھوڑا گیا مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں منظور کچھ مختلف ہیں بلوچ کافرتو نہیں ہیں مگر انکے ساتھ ریاست کی جانب سے سوتیلے ماں جیسی سلوک انتہائی حیران کن ہے ، اور یہ عمل انسانی روح کو بے قرار کرتی ہے، جن کو ریاست جبری طور پر گمشدہ کرکے انکے لواحقین سے سالوں سال دور رکھتا ہے جو کرب ناک عمل ہے جوکہ کافروں کی مخترع پالیسی تھی جس کو ایک اسلامی ریاست نے اس عمل کا انتخاب کیا- رپورٹ کے مطابق ہزاروں کی تعداد میں بلوچ جبری طور پر لاپتہ ہیں اور ان کا تعلق مختلف اضلاع میں سے ہیں۔
آرٹیکل ون انسانی حقوق کے کنونشن کے مطابق جن کی دستخط کنندگان میں ریاست پاکستان بھی شامل ہے جب انسانی حقوق کی عالمی 1948میں وجود میں آیا تو بہت سے ممالک نے اس متفق ہوکر لبیک کہا لہذا بین الاقوامی قوانین کے تحت ایک غیر آئینی اور غیر انسانی فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے جب کوئی ریاست انسانی حقوق کی پاسداری نہیں کرتا تو UN General Assemblyکے اختیار میں ہے کہ وہ اس ملک کی رکنیت معطل کرے جس خود سلامتی کونسل کے ذریعے زور دیا جائے گا –
مثلاً محمد نسیم بلوچ جوکہ ایک مخلص شفیق انسان ہونے کے ساتھ ایک اچھے کردار کے مالک ہیں جو ریاست کی جانب سے 14 مئی 2019 کو کراچی میں جبری طور پر لاپتہ کر دیئے گئے ہیں جبکہ میرا دل یہ کہتا ہے کہ وہ کسی غیر قانونی اور آئینی عمل میں ملوث نہیں ہوسکتا ہے جوکہ گزشتہ دو سال سے پابند سلاسل کردئیے گئے ہیں، ستمبر 2018 نسیم دشتی کی جانب سے مجھے فون آیا کہ آپ کچھ دوستوں کو لیکر کراچی پریس کلب پہنچیں جائیں ہم لاپتہ افراد کے لیے پرامن احتجاجی مظاہرہ کرنے جارہے ہیں کچھ دن بعد جب ہم ملے تو میں نے ان سے کہا کہ آپ پہلے اپنا آخری تعلیمی سال مکمل کریں بعد میں پرامن طریقے سے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔ ایک قہقہہ لگا کر درد ناک انداز میں کہا کہ مجھے یہ بے حسی اندر سے کھایا جارہاہے۔ میرا ضمیر مجھے اس بات کی کی قطعی اجازت نہیں دیتا کہ میں خاموش رہوں- میں نے حقارت کی نظر سے نسیم کو دیکھنے کے بعد خود کے ضمیر کو ملامت کرتا رہا- ہم اپنے تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست کرتے ہیں کہ قانون سازی کے ذریعے جبری گمشدگیوں کو کالعدم کیا جائے جو پاکستان کے دیگر صوبوں کا بھی ایک اہم مسئلہ ہے اور اگر کوئی غیر آئینی عمل میں ملوث پایا گیا تو اسکے منصفانہ سماعت کے ذریعے پیش کیا جائے جو ہر شخص کا آئینی حق ہے۔
منشیات فروشی جو بلوچستان میں بڑے پیمانے پر جاری ہے جس کی روٹ اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہے جو افغانستان سے ہوکر مرکزی ایشیا اور یہاں بلوچستان کے روڈ اور بارڈرز سے داخل ہوکر بلوچستان کے ساحلی پٹی سے خلیج فارس اور یورپ میں سپلائی کی جاتی ہے رپورٹ کے مطابق افغان شورش پسند اپنے 65 فیصد اخراجات منشیات سے حاصل کرتے ہیں جن میں بلوچستان کے بہت سے سیاسی قربت رکھنے والے لوگ اور عسکری افراد منشیات کے سپلائی کی پشت پناہی حاصل ہے جوکہ بلوچ نسل کشی عمل ہے اور یہ عمل عمل کئی دہائیوں سے جاری ہے , یہی پیسہ انتخابات میں خرچ ہوتے ہیں جو ووٹ کی خرید وفروخت میں استعمال ہوتے ہیں جو عوامی مینڈیٹ کے برعکس ہے ریاست پاکستان کو چاہیے کہ وہ منشیات کی روک تھام کے لیے سنجیدگی سے اقدامات اٹھائے۔ بطور شنگھائی کورپوریش آرگنائزیشن کے ممبر ہیں اور منشیات کی روک تھام اس کا بھی نشانہ ہدف ہے اور ریاست پاکستان نے اس کے روک تھام کی یقین دہائی کرائی ہے
–
تفریق پسندی نے بلوچ قوم کو اس قدر بے بس کررکھا ہے جو اسے دیمک کی طرح کھائے جارہا ہے امریکہ بھی اسی تفریق پسندی سے گزر چکا ہے جب امریکہ میں 4اپریل 1861 میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو جنوب کی آدھی سے زیادہ ریاستیں امریکہ سے علیحدہ ہوگئے اور ایک علیحدہ ریاستیں ریاست متحدہ امریکہ وجود میں آئی مگر ان کے اکابرین کے اہلیت کی وجہ سے وہ تفریق پسندی سے نجات حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے اور غلامی کے نظام کو مکمل طور پر ختم کیا گیا- بلوچستان پہلے اپنے بایاں بازو سے محروم ہوا جو کہ مذہبی جذبات ہمیشہ قومی تحریک یا قومپرستی کو کچلنے کے لیے استعمال ھوتے رہیں- ,( ہلمند ,قندہار اور نمروز ) بلوچستان سے الگ ہوکر رہ گئے جو اب افغانستان کے حصے ہیں بعد میں جاکر برطانوی راج نے جس طرح اس وقت تفریق پسندی کو بلوچستان میں فروغ دیا جو شاید کسی جگہ دیکھنے کو کم ہی ملی ہوگی جن میں ایرانی مغربی بلوچستان سیستان جو کہ وائسرائے اور ایرانی بادشاہ کے درمیان حدبندی کے ذریعے 80-1872 اور 1920 میں طے پائے جو اب ایران کا حصہ ہے اور مشرقی بلوچستان کو اب ریاست پاکستان کے تابع ہے-
برطانوی استعمار نے بلوچ قوم کو غیر منقسم دفعہ دار میں تقسیم کرکے نا صرف زمینی اور تاریخی حقائق کے تخریب کاری کی بلکہ ایک قوم کو سرحدوں کی رکاوٹوں تک محدود کردیا 1963 ایران نے ایرانی بلوچستان پر 75 ملین ڈالر خرچ کے گئے جو ایرانی بلوچوں کو قومی دائرے میں لانے کے لیے اپنا کردار ادا کیا –
مادیت اور شخصیت پرستی بلوچ قوم کو مزید تباہی کی طرف لے کہ جارہی ہے- بھولے عوام اپنے سیاسی قائدین کی خوشامدی میں اتنے مگن ہیں کہ اُنہیں ان کی غلطیوں اور مصلحانہ پالسیوں پر سوچ و فکر کرنے کے لیے وقت بھی میسر نہیں جو صرف اقربا پروری, دوست پروری اور مادیت کو فروغ دے رہے ہیں جن کا مقصد صرف ضمیر پروشی کو مبالغہ کر کے اپنے اقتداری قیوم کو جاری رکھنا ہے- جن کی بنا پر عوام کو اشخاص کی غلامی ,چپلوسی کرنا اور اپنے قائدین کی نالیوں اور روٹ والی ترقی کو حقیقی اجتماعی ترقی سمجھنا ہے کیونکہ بنیادی ڈھانچہ پر ترقیاتی کاموں میں وہ منافع اور فوائد حاصل ہوتی ہیں جو اور کسی حلقہ و شعبہ میں دیکھنے میں اتنا نہیں ملتا , یہحی وجہ ہے کہ باقی شعبہ جات نظرانداز ہیں جن میں تعلیم,صحت,زراعت وغیرہ شامل ہیں . اگر آپ CPEC کی قلیل مدتی منصوبہ 19-2013 جو CEPC کے روٹ کے انفرا اسٹرکچر کا جائزہ لیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ سب ترقیاتی کام کسی نے کیے ہیں اور اُن کا مقصد کچھ اور ہے مگر ہمارے سابقہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں خود کو کریڈٹ دیتے ہیں–2025-2019 جو کہ سی پیک کی مڈٹرم پروجیکٹ کا مرحلہ ہیں جس میں گودار اور ملک کے دوسرے جگہ صنعتوں اور عمارتوں کی تعمیر ہونے کو ہیں جن میں گودار کے آبائی لوگوں کے بےگھر ہونے کا خدشہ ہے لہذا یہ منصوبے جس کسی وفاقی یا صوبائی حکومتوں کے دور میں ہوں گے وہ اَن صنعتی ترقیات کی تعمیر کا تسلیم شدہ کام اپنی حصہ میں اپنے کھاتے میں ڈالے گے ,2030
طویل مدتی منصوبہ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی آمد سے ہوگا مگر بدقستی سے بلوچ خود کو اب غیر محفوظ اور اقلیت کے طور پر تصور کرنے لگیں گے۔
بلوچستان میں بیروزگاری اور لاقانونیت اپنی چوٹی پر ہےاور سال میں پیچاس ہزار لوگ گریجویٹ کرتے ہیں، جن میں صرف پچیس سو لوگ بڑی مشکل سے ملازمت کے مواقع حاصل کر پاتے ہیں – رپورٹ کے مطابق بزاروں کی تعداد میں انجنیرز بےروزگار ہیں مگر بدقسمتی سے مجال ہے کہ ہمارے سیاسی قائدین اور اکابرین اس پہلو پر غور و فکر کریں, بلوچستان میں انتشار کی بناپر پہ منصوبہ بندی کے تحت بلوچستان میں ترقیاتی منصوبے کی تعمیرات اور عمارت فرنٹير وركس آرگنائزشن کے زیر نگرانی دے دی گئی ہیں جو کے صوبہ کا پیسہ چھوٹے اشرافیہ کے ہاتھ سے پھر وفاق کو منتقل ہوتے جارہے ہیں، جو کہ بلوچستان کے لوگوں کی حق تلفی ہے جن منصوبوں سے بلوچستان کے عام لوگوں کا روزگار کے مواقع ملنے تھے، جن کے پاس تکنیکی مہارت کے صلاحیت موجود ہیں مگر بدقسمتی سے لاقانونیت کی بنا پر منصوبہ بندی کے تحت 44 ارب روپے امن و امان پر خرچ کےجارہے ہیں، جس کی وجہ سے باقی ادارے زبوں حالی کا شکار ہوگئے ہیں۔
آئین پاکستان تمام شہریوں کو مساوات برابری ، معاشرتی ، سماجی انصاف اظہار عقیدہ اجتماعی آزادی کی ضمانت دیتی ہے۔ جس میں اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے جائز مفادات کے تحفظ اور اپنے شہریوں کے فلاح و بہبود کی ضمانت دیتی ہے، ریاست اس کا دستور اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچنے اور آجرو ماجور اور زمیندار اور مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر بلا لحاظ جنس، مذہب یا نسل ، عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی حن میں بھی تمام وفاقی ملازمتوں میں بشمول خود مختار اداروں اور کارپوریشنوں کے جن قیام وفاقی حکومت کے ذریعے عمل میں آیا ہو، یا وفاقی حکومت کی زیرنگرانی ہوں، صوبوں کا حصہ یقینی بنایا جائے گا۔ اور ماضی میں صوبوں کے حصوں کی تقسیم میں ہونے والی فروگزاشت کو درست کیا جائے گا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔