بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا
پریس کلب کی گولڈن جوبلی، لڈو، اپنے اور غیروں میں گرا بلوچستان
تحریر: منظور بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
اچھا ہوا ہمیں بتایا گیا کہ ہم پر اسی دن پتھروں، آگ کے دہکتے گولوں کے ساتھ الفاظ، تقریر و تحریر، ایک محدود دائرے میں خیالات کا سفر، جذبات و محسوسات سے سرد مہری کے افکار اور کھوکھلے فلسفے کا بھی حملہ ہوا۔اور یہ نیا حملہ آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے ہوا۔ جس کی فصل آج کاٹی جا رہی ہے۔ اور قبضہ گروپس اب کی بار خان، میر و جاگیردار کی صورت میں جعلی اشرافیہ کے ساتھ ایک ہی میز پر بیٹھے الفاظ کی حرمت کا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔
اور جو مقامی سردار اور سیاست دان تھے،ان پر حیرت ہوئی کہ انہوں نے بھی اپنی بربادیوں کا پچاس سالہ جشن ان کے ساتھ مل کر، بیٹھ کر، ہنس کر۔ جو ہمارے نہ تھے۔ غیر تھے، وہ کہیں باہر سے آئے تھے۔کچھ وہ دنیا داری کے ماہر تھے کچھ نگران آنکھوں کی ضرورت بھی تھے۔اور آہستہ آہستہ لینڈ گریبنگ کا سلسلہ اس لئے شروع نہیں ہوا تھا کہ سوالات میں غلطاں و پیچاں بلوچ نئی صورت حال سے سنبھل بھی نہیں پائے تھے۔ان کے اخبارات تھے، ان پر مختلف شکلوں میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔وہ بکھر گئے، کھو گئے اور اب ان کی صرف یادیں ہیں۔
ایسے میں جب تعلیم کے ساتھ ساتھ لوگوں نے صحافت کیلئے اس زرخیز سر زمین کی طرف رخ موڑا،اور جلد ہی مقامیوں کو ان کی سادگی اور بھولپن کے باعث پیچھے دھکیل دیاگیا۔ چونکہ حکومت سے لے کر مقامی بیوروکریسی تک، سبھی ہی انہی آبادکاروں کے پاس تھے۔اس لئے ان کا ان نئے آبادکاروں کو جو اب صحافت کے شعبے کو تاڑ چکے تھےسے یارانہ انہونی بات نہ تھی۔
پھر اس کے بعد حکومتوں کا بننا، ٹوٹنا،پارٹیوں کی تقسیم سب میں یہ صحافت کے نام پر ملوث رہے۔ اور آج بھی جب بربادیوں کے پچاس سالہ جشن میں ان چند گروپس کے ساتھ اپنے سیاست دانوں کو بھی دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آج ہمارا سردار بھی ان کی خوشامدکیلئے خود کو محتاج سمجھتا ہے۔ اور دوستی کے نام پر محتاجی کے اس تعلق کو پورا کیا جاتا ہے۔ اصل میں سب نے بلوچستان پر حکمرانی کی ہے۔
اس حکمران محل کیلئے ایک زیریں دروازہ پریس کلب کوئٹہ سے سب کیلئے کھلتا ہے۔جسے آج چند لوگ گولڈن جوبلی کا نام دے رہے ہیں۔ یہ دراصل ہماری دیرینہ صحافت کی روایت، صحافت کو ایک مشنری فریضہ سمجھنے والوں اور روشن خیالوں کا یوم سقوط بھی بنتا ہے۔بلوچستان جہاں 80 فیصد سے زائد لوگ غربت کی لکیر سے نیچے بیشتر آبادی کے حصے کو پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں۔ اندرون بلوچستان بجلی کی سپلائی عدم سپلائی کی مترادف ہے۔زمینداروں کو پیداوار کیلئے کیا کیا جتن کرنے پڑتے ہیں۔ اور اگر بدقسمتی یا خوش قسمتی سے ان کی کوئی فصل اچھی ہو گئی، تو دیگر ملکوں کی مارکیٹوں سے اس ضرورت کو پورا کیا جاتا ہے۔ اور زمیندار دیوالیے ہوتے جا رہے ہیں۔ لاکھوں بچے سکول تک نہیں پہنچ پاتے۔زچگی کے درمیان بچوں اور خواتین کی اموات کی شرح بھی سب سے زیادہ ہے۔یہاں پورے بلوچستان کے فنڈز ہر سال کوئٹہ پر خرچ کیے جاتے ہیں۔جو کہ ایک شہر کہلانے کے لوازمات کو بھی پورا نہیں کرتا۔اس میں اب غیر ملکی مہاجرین سے لے کر پاکستان بھر سے آئے ہوئے لوگ موجود ہیں۔ جس کی وجہ سے غیر ملکی اور آبادکاروں کیلئے کوئٹہ دبئی ہے۔ اور اس کے جو اصل وارث ہیں وہ روز بروز پستی میں دھکیلتے جا رہے ہیں۔ ان کا کوئٹہ کے ”بالائی“ میں کسی بھی قسم کا حصہ نہیں ہے۔
ہر سال خونی شاہراہوں پر آٹھ ہزار افراد کی موت ہوتی ہے۔ جبکہ ان میں زخمی ہونے والے اہل خانے کی تعداد الگ ہے۔ بارہ ہزار افراد جن میں بیشتر نوجوان ہیں کینسر سے مارے جاتے ہیں۔ یہاں مقامی افراد کا کوئی ایسا گھر نہیں، جس میں کوئی جوان شہید کی فوٹو، یا کوئی اپاہج یا کوئی مسنگ نہ ہو۔
بڑے بڑے سانحات کو شمار کیا جائے تو ہمارا حافظہ بہت کچھ بھولنے لگتا ہے۔اب سانحات کو دیکھ کر افسوس کا بھی اظہار نہیں کیا جاتا۔ سارے شہر اور اندروں بلوچستان کیلئے صبر کے سواء کچھ بچا ہی نہیں ہے۔
دو عشروں سے ہم مسلسل بڑھتی ہوئی اموات کی تعداد دیکھ رہے ہیں۔کیا اس سے قبل اتنے پیمانے پر غیر طبعی اموات ہوئی تھیں؟اتنے نوجوان پیوند خاک ہوئے؟ جنکی گنتی ہوتے ہوتے پوری نہیں ہوتی، ان کو خاک کا پیوند کرنے کیلئے لانے والے انہی کے ماں باپ تھے،یعنی بوڑھے لوگ اب زیادہ قبرستانوں میں نظر آتے ہیں۔ کیا بہت عرصہ پہلے اس کی تیاری ہوئی تھی؟ کوئی خاکہ بنا تھا؟ کچھ تو ہوا ضرور تھا، بات جو اس نہج تک پہنچ گئی۔ کیونکہ حادثے ایک دم نہیں ہوتے، ماچس کی ایک تیلی جلانے سے شہر نہیں جلتے۔
بلوچستان میں قبضہ گیریت کی روایت کا آغاز معلوم کرنے کی کوشش کیجئے گا۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اس کاپتہ بھی ہمیں پچاس سال قبل کے دفن شدہ خیالات میں موجود ملے۔
کوئٹہ کوئی عام شہر نہ تھا، یہ خوابوں کا شہر تھا۔ اس کا اپنا ایک حسن اور رعنائیت تھی۔ بلوچوں نے تو اس وقت بھی قبضہ گیری نہیں کی جب ان کے سامنے 47ء کے فسادات میں سکھ، ہندو اپنے گھر بار، کاروبار چھوڑ کر جا رہے تھے۔ بلوچ کے ہر سماجی حصے نے، اقلیتوں بالخصوص ہندو، سکھ اور عیسائیوں کے تحفظ کو اپنا تحفظ سمجھا۔ کہیں شہید نواب اکبر بگٹی نے اپنے قلعے میں ہندوؤں کی بستی آباد کی۔ کہیں وڈھ میں سردار عطاء اللہ مینگل ان کے سب سے بڑے وارث تھے۔ قلات میں شاہی محل کے ساتھ آج بھی ہندوؤں کی دکانیں موجود ہیں۔ وہ قلات کی مٹی سے ایک لمحے کیلئے جدا ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ یہی حال نوشکی، خاران کا ہے۔
آج ہم جن انتہا پسندیوں کی بھینٹ چڑھائے گئے ہیں۔ان کا تعلق ہمارے معاشرے سے کبھی نہیں رہا۔ بلوچ آج بھی ”باہوٹ“ پر مرمٹنے والا تھا۔ وہ اپنے کوڈ آف کنڈکٹ کو توڑنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ لیکن آہستہ آہستہ انہی روایات کو نشانہ بنایا جانے لگا۔تمام قبائلی روایات میں ایسی بے ہودہ پیوند کاری کی گئی کہ آج بلوچ کوڈ آف کنڈکٹ نزع کی عالم میں ہے۔ یقیناََ یہ آنے والی نئی تبائیاں،جن سے اہل بلوچستان اور بالخصوص کوئٹہ کے لوگ آگاہ نہیں ہیں، ان کی بیج بھی کہیں باہر سے لائے گئے۔ ان بیجوں کی بارٓوری کیلئے جو خیالات، نظریوں کی صورت میں تھے،وہ بھی کہیں باہر سے لائے گئے تھے۔
ان بیجوں کو اس سرزمین میں ڈالنے کیلئے میڈیا کی ضرورت تھی۔ ٹیلی وژن،ریڈیو کے ذریعے ”نظریاتی خیالات“ کی آبیاری کا آغاز ہو چکا تھا۔ لیکن اس وقت کی ”نگران آنکھوں“ اور ”بڑے بھائی“ کو اس سے زیادہ موثر میڈیم کی ضرورت تھی۔کیونکہ ریڈیو اور ٹی وی کا دائرہ بڑا محدود رکھا گیا تھا۔ اس پر اپوزیشن کی آواز کا تصور تک موجود نہیں تھا۔ اس لئے لوگ اپنی ہی وطن سے متعلق خبروں کیلئے بی بی سی پر انحصار و اعتماد کرتے تھے۔ لہذا ضرورت تھی اخباروں کی، ایسے اخبارات جن کو اب مشنری فریضہ نہیں، بلکہ ایک انڈسٹری کی صورت گری کرنی تھی۔ سیٹھوں کو تو ایسے مواقع کی تلاش ہوتی ہے۔بلوچستان میں سیٹھوں کے اخبار کے ساتھ ساتھ پریس ٹرسٹ کے اخبارات بھی موجود تھے۔
باہر سے آنے والے آبادکار جو آٹھ جماعت پاس بھی تھے یا نہیں،اخبار کی کسی ضرورت کو پورا کر سکتے تھے۔ اسی لئے بڑے اخبارات کا اجراء ہوا اور انہی اخبارات کے ذریعے سیٹھوں نے اسی بات کا پرچار کیا۔جس کی ضرورت”نگران آنکھوں“ کو تھی۔
وقت کے ساتھ ساتھ یہ صنعت آگے بڑھنے لگی۔ اس میں آبادکاروں کی دل چسپی زیادہ تھی۔ مقامی آبادی اب تک اس کے قریب نہیں تھی۔اور دور سے ہی اس کے ڈر اور اسکی بالا دستی کو ماننے لگے تھے۔
حقیقت بھی یہی ہے کہ آپ کو ہر وہ شے خوفناک محسوس ہوتی ہے، اس کیلئے آپ عزت و وقار کا ہالہ سا بنا لیتے ہیں،اس لئے کہ آپ اس کو نہیں جانتے۔اور جونہی جاننے لگ جاتے ہیں اس کا خوف،اس کا اثر مٹتا چلا جاتا ہے۔ اس لئے اب ضرورت اس امر کی تھی کہ دوسرے بعض اداروں کی طرح اس کو بھی ”مقدس“ بنایا جائے۔ اس لئے آزادی صحافت کا نعرہ بھی ایجاد کر لیا گیا۔
ایسے میں پریس کلب کی ضرورت اور کہانیوں کا آغاز ہوتا ہے۔ جب ہم نئے نئے اس شعبے میں آئے تو پریس کلب کی پرانی عمارت میں کبھی کبھی چپڑاسی، چوکیدار، باورچی سے جو سالہا سال سے یہیں کام کرتے تھے، پتہ چلتا تھا کہ اس سے قبل کوئی بٹ صاحب تھے۔ غالباََ کریم بٹ۔ پریس کلب پر اس کا قبضہ تھا۔ پھر اس قبضہ کی ایک کہانی بھی ہے،جو شاید پرانے لوگوں یا سینئر صحافیوں انور ساجدی، امان اللہ شادیزئی اور صورت خان مری و دیگر کو معلوم ہو۔
پھر اول قبضہ گیریت کے خلاف دوم قبضہ گیریت آئی۔اور اس کو ایک جمہوری ادارہ کا تحفظ بھی فراہم کیا گیا۔ یعنی جمہوری انداز میں قبضہ کا دوام۔
موجودہ لڈوکھیلنے اور کھلانے والے آج گولڈن جوبلی کے جشن منا رہے ہیں یہ دراصل اس وقت بہت جونیئر تھے۔ کوئی جے وی کلاس ٹیچر تھا،کوئی کاپی پیسٹ کرنے کا کام کرتا تھا، کوئی واپڈا میں لائن مین تھا، کوئی کسی اخبار کا چپڑاسی تھا۔ یہی لوگ جب آگے پڑھ کر اس پیشے میں آکر مستند، سکہ بند صحافی بن گئے تو ان کے درمیان اور ان سے پہلے کے پریس کلب کے اصل مالکان کے درمیان انتخابات کی صورت میں دنگل بازی ہواکرتی تھی۔ ہم بھی بہت مرتبہ ایسے نام نہاد گروپوں کا حصہ بنے۔ جو پریس کلب کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا چاہتے تھے۔
اب قبضہ گیریت کو قبول کرکے اس کے اندر رہ کر پریس کلب کے اختیارکے حصول کی کوششیں تھیں، انھیں اس بات سے کوئی غرض نہیں تھی کہ یہ جگہ جہاں پریس کلب واقع تھا،کس کا تھا۔اور اس کی ادائیگی کیلئے جس حکومت نے بھی رقوم فراہم کیں وہ عوام کے پیسے تھے۔سیٹھوں کے اخبارات اور ان کی صنعت کی بھوکی پیٹ کیلئے اشتہارات کے نام پر سالانہ ایک بہت موٹی سی رقم مختص کی جانے لگی۔ تاکہ عوام کا پیسہ اپنوں اپنوں میں بٹنے کا یہ حصول تادیر جاری رہے۔ بدلے میں اہل قلم نے، پتہ نہیں یہ لفظ یہاں درست ہے یا نہیں؟ ان خیالات کا آمیزش و افزائش کیلئے کام کرنا شروع کیا۔ ”نگران آنکھوں“ سے لیکر ان کی مرضی سے آنے والی حکومتوں، سیاسی و قوم پرست پارٹیوں، سرداروں و نوابوں کا ان سے واسطہ پڑا۔
انہوں نے جعلی پارٹیاں، جعلی لیڈر بنوانے پر کبھی اعتراض نہیں کیا، اس کے برعکس وہ جعلی پارٹیوں اور افراد کو رہنماء بنا کر ان کو موٹی آسامی کے طور پر دیکھنے لگے۔
اس تمام کھیل میں استثنیات بہرحال موجود ہیں، جہنوں نے محنت کو اپنا شعار بنایا اور کبھی کسی سے ایک روپے بھی خبر کیلئے نہیں لی۔ ان کی شہرت آج بھی ایماندار اور اعتماد رکھنے والے صحافیوں کی ہے۔ لیکن سیٹھوں کے اس تمام کھیل میں آج سے ٹھیک پچاس سال پہلے (یاد دلانے کیلئے گولڈن جوبلی کا شکریہ) ایسے خیالات ہمارے اس معاسرے میں درامد کیے گئے جو اجنبی تھے۔
آج سے پچاس سال پہلے ہی کوئٹہ کے قدیم ترین ڈکشنری کے الفاظ کو تبدیل کیا گیا۔اب ان کے معنی وہ نہیں تھے جو سماجی ڈکشنری میں آج بھی کہیں موجود ہیں۔
جمہوریت، روشن خیالی سے لیکر صبر، قربانی، بھائی چارے کے الفاظ اس تواتر کے ساتھ استعمال ہوئے کہ ان کی معنویت ہی بدل گئی۔ کوئٹہ شہر تو ایک تھا لیکن پچاس سال قبل اس کیلئے دو ڈکشنریاں بن گئیں۔ ایک عوام کی۔ ایک سیٹھوں کے میڈیا کی۔ سیٹھوں کو مال کی ضرورت تھی۔اور ان کیلئے کام کرنے والوں کا اپنے گھر بار، بچے،رشتہ دار کے ساتھ ساتھ ایک پاپی پیٹ بھی تھا۔ جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہوئے وہ کسی اخلاقی ذمہ داریوں کو نبھانے یا کسی انسان دوست نظریے کے پھیلاوٗ کیلئے نہیں آئے تھے۔ وہ سیدھے سادے روزگار کیلئے آئے تھے۔ لیکن ان کو یہ جاننے میں دیر نہیں لگی کہ اس روزگار کو دوکانداری میں بھی تبدیل کیا جا سکتا ہے۔
اور یوں ہمارے معاشرے میں ایک اور معاشرہ کے بنانے والوں میں خال خال ہی کوئی بی اے یا ایم اے کرکے پڑھا لکھا شخص کہلائے جانے کے قابل تھا۔ شاید چند لوگ ہونگے جو جنرل کتابیں بھی پڑھتے تھے۔ یا ان کو انگریزی زبان سے شناسائی تھا۔
یوں یہ جشن اس بات کا بھی بنتا ہے کہ چاہے تو مڈل پاسیئے بھی ایک شہر کے پورے کلچر، تہذیب،الفاظ و معانی کو بدل سکتے تھے۔ جشن منانے والے تو اپنی جگہ درست تھے لیکن باہر سے اس ”پریس کلب اسٹیبلشمنٹ“ کے پروگرامز میں شریک ہونے والے تو سارے ہی اسی کے متاثرین تھے۔ان کی اپنی اپنی بربادیاں تھیں،جس میں ملوث وہی لوگ تھے جو آج ان کے ہمراہ میزبان کی حیثیت سے بیٹھے لطف اندوز ہو رہے تھے۔
جب تک ٹی وی چینلز کا آغاز نہیں ہواتھا اس وقت کوئی مقامی نوجوان صحافی اس اسٹیبلشمنٹ کی پرانی عمارت میں داخل ہی نہیں ہو سکتا تھا۔ داخل ہوتے ہی اس کو اس کی اوقات بتا دی جاتی تھی۔جب وقت کے ساتھ ساتھ ان اردو نہ جاننے والے ”جاہل“ مقامی افراد کی تعداد بڑھنے لگی تو اب انہوں نے اس کا نیا طریقہ یہ نکالا کہ نئی عمارت بنوا کر مہمانوں کے بیٹھنے کیلئے بنایا گیا لان ختم کیا گیا۔عام کچہری اور مجلس کیلئے اب لان کی سہولت کو کمروں میں تبدیل کر دیا گیا۔ جہاں یقینا کوئی جانے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ پھر سیکیورٹی کے معاملات کے پیش نظر گیٹ پر پولیس کے پہرے بٹھائے گئے۔ اب کہاں کا پریس کلب، کہاں کا لان، کہاں کی باتیں؟ اسی پرانے زمانے میں کسی پریس کانفرنس کے دوران کسی مقامی صحافی کو اجازت نہ تھی کہ وہ سوال کر سکتا۔ اس کو وہیں جھڑکیاں سننے کو پڑتیں۔
پریس کلب سے مقامی جرائد کے ایڈیٹروں کو بھی ”جمہوری“ طریقے سے آئین میں تبدیلی لاکر باہرکیا گیا۔ جس کی مخالفت شاید انور شاہ اور ان کے ساتھیوں نے کی تھی۔
پاکستان کی صحافت پر بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ خاص طور پر ضمیر نیازی کی (the press in chains)کتاب اس صحافت کا آئینہ ہے۔ اس ایک کتاب کو پڑھ کر اصلی صحافت کا چہرہ سامنے آتا ہے۔ یہ کراچی اور ڈان جیسے اخبارات کی کہانی ہے۔ اس کاموازنہ اگر بلوچستان سے کیا جائے۔۔۔۔تو؟
یہاں کوئی ضمیر نیازی بھی نہیں۔ جو بلوچستان کی صحافت کی تاریخ پوری دیانت کے ساتھ لکھ سکے۔
چند سال قبل مارکیٹ میں ایک کتاب ”میڈیا منڈی“ کے نام سے آئی۔ لیکن تاحال بلوچستان کی صحافت اور تاریخ پر کوئی حقیقی کام نہیں ہوا۔ اس ضمن میں چند سال قبل پروفیسر ڈاکٹر سیمی نغمانہ طاہر نے بلوچستان کی صحافت کے آغاز و ارتقاء پر ریسرچ تھیسسز لکھی۔ لیکن اس میں بھی اس کہانی کے اصل خدوخال اور بہت سارے زندہ کردار موجود ہی نہیں۔
کچھ عرصے قبل تک بعض دیگر اداروں کی طرح صحافیوں اور اخبارات پر لکھنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس لئے کہ ایسا کوئی بھی مضمون یا کالم یہاں کے کسی اخبار میں چھپ ہی نہیں سکتا تھا۔
سالانہ کروڑوں روپے کمانے کے باوجود یہاں کی صحافت اور اکثر صحافی بلوچستان کو جانتے ہی نہیں۔ ان کو یہاں کے زمین زادوں سے کسی قسم کی دل چسپی نہیں۔ وہ مرتے ہیں تو مرتے رہیں۔ وہ بھوکے ہیں تو بھوکے رہیں۔ ان کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ ہوتی ہے، تو ہونے دے، ہمارا کیا۔
اس کے برعکس لوٹ مار میں وہ برابر کے شریک ہیں جب گولڈن جوبلی منانے والے اور ہر عہد کی حکومت یہ بیانیہ جاری
کرتی ہے کہ بلوچستان حکومت اور پریس کا تعاون دوستانہ اور مثالی ہے۔ کیا دنیا کا ایسا کوئی خطہ، کوئی ایسی صحافت بھی ہو سکتی ہے، جس کا ہر موجودہ حکومت کے ساتھ یارانہ ہو۔ یارانہ اگر ان سے ہوگا،تو پولیس سے بھی ہوگا،اور بہت سے جرائم پیشہ افراد سے جو سیاست کے نام پر اپنا کھوٹا کھرا کرنے کیلئے انہی کے پاس آتے ہیں۔ جب پولیس سے لے کر پٹواری تک سبھی کے ساتھ تعلقات دوستانہ اور مثالی ہونگے۔ توان کی زد میں کون ہوگا۔ یہی زمین زادے جن کی سرزمین پر ان کی اسٹبلشمنٹ قائم ہے۔ یہی زمین زادے جن کے پیسوں سے ان کا سب کچھ چلتا ہے اور بدلے میں وہ زمین زادوں کی روایات تک کو کچل دینے کی پرواہ نہیں کرتے۔اس لئے ان کے تعلقات ہر حکومت سے مثالی ہو سکتے ہیں۔ حکومت چاہے جیسی بھی ہو، مشرف کا مارشل لاء ہو، امیر الملک کی گورنری ہو، یا اختر مینگل، نواب رئیسانی اور ڈاکٹر مالک کی حکومت ہو۔ سب کے ساتھ ان کے تعلقات دوستانہ ہیں۔ اس لئے دوستوں کے بارے میں تو کوئی ”منفی“ خبر نہیں چلائی جا سکتی۔
ایسی خبروں کو رکوانے کاکام بھی یہاں ہوتا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اس جگہ پر خیالات کی نوک پلک درست کی جاتی ہے۔ نظریوں کو مسلط کیا جاتا ہے۔ حکومتوں کی برطرفی، بلوچ قوم پرست رہنماؤں کے خلاف بیانات بھی انہی دفاتر سے تیار ہو کر عام آدمی تک پہنچ جاتے ہیں۔ چونکہ گولڈن جوبلی منانے والوں کی کلاس تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لئے وہ زمین زادوں کے سیمیناریا پریس کانفرنس کیلئے فیس کے نام پر بھتہ لیتے ہیں۔اس لئے کہ صرف جگہ ان کی ہوتی ہے۔دس ہزار روپے سیمینار کیلئے دیئے جانے کے بعد بھی اس تقریب میں کوئی بڑا صحافی اپنی جگہ،کوئی عام رپورٹر تک نہیں ہوتی۔
ہاں البتہ کسی وزیر، وکیل، وزیراعلی،پارٹی سربراہ کی موجودگی میں ان کی اتنی بڑی تعداد نکل باہر آتی ہے۔ کیا بلوچستان میں اتنے صحافی ہو سکتے ہیں؟
ایسی کتنی مثالیں ہیں کہ جب روم جل رہا تھا تو نہرو بانسری بجا رہا تھا۔ جب انگزیر ہندوستان پر قبضہ کرنے آیا تو اودھ کے نواب شطرنج کھیل رہے تھے۔اب پتہ نہیں ان مثالوں کے ساتھ یہ مثال بن سکتی ہے کہ جب بلوچستان اپنے ہی زمین زادوں پر تنگ ہو رہی تھی تو اس کے صحافی لڈو کھیل رہے تھے۔اورزمین زادوں کے شرفاء ان کیلئے تالیاں بجا رہے تھے۔بالکل اسی طرح جس طرح ان شرفاء کے جلسوں میں عام آدمی اور عام کارکن تالیاں بجاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔