اگر آریسر زندہ ہوتا
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
آج اگر آریسر زندہ ہوتا اور تھر میں اپنے چوئرے میں بیٹھا مولانا آزاد کی کتابیں پڑھ رہا ہوتا اور ساتھ میں 7نمبر کا سگریٹ بھی جلتا رہتا اور کوئی آکر آریسر کو بتاتا کہ “سائیں سندھ کے دانشور جامی چانڈیو نے چوری کے الزام میں ایک معصوم چھوٹے تھری بچے کو لاک اپ میں بند کرا دیا ہے” تو آریسر خاموش ہو جاتا اور ایسا معلوم ہوتا کہ آریسر پر کارونجھر پہاڑ گرگیا ہے اپنی تمام گلابی رنگت سمیت آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ تھر کے سب مور ماتم کر رہے ہیں۔
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ وہ بادل جو تھر پہ ٹہر ٹہر کر برستے ہیں اور ریت کو گیلا کر جاتے ہیں وہ سب بنا برسے واپس لوٹ رہے ہیں
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ ابھی ابھی تھر میں ریت کا طوفان آجائیگا
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ اگر تھری مور مرتے نہیں تو وہ سندھ کے صحرہ کے اس پار اتر جائیں گے
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ جلتے سگریٹ سے یہ چوئنرہ بھی جل جائیگا جس میں وہ بیٹھا ہے
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ جو کارونجھر پہ گلابی پتھر کو لے جانے کو دھماکہ ہو رہے ہیں وہ دھماکہ اس کے اس کے اندر ہو رہے ہیں اور اب کوئی نیا دھماکہ اسے ریزہ ریزہ کر دے گا۔
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ تھر میں موجود سب مندروں کا رنگ سیاہ ہوگیا ہے
خاموش گھنٹے بجنا شروع ہو گئے ہیں اور مندر میں موجود مورتیاں رو رہی ہیں
چاند پتھر کا بن کر کارونجھر کی کور میں گررہا ہے
اور ستارے سیاہ پڑتے جارہے ہیں
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ اس نے آج تک جو پڑھا ہے وہ اس سے بھولا جارہا ہے
آریسر شاہ لطیف کی شاعری کو ماتم کرتے دیکھتا
اور ایاز کی کتابوں کو جلتے
آریسر وہاں بیٹھے بیٹھے پلیجو سے بھی ہاتھ جوڑ کر پوچھتا کہ
،،سائیں یہ کیا ہو رہا ہے؟!،،
اور پلیجو اپنے مخصوص سیا سی ادبی انداز میں جواب دیتا کہ
،،اس کے پاس دانشوری کا لائینس ہے تھری بچے اور تمہا رے پاس کیا ہے؟!،،
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ بھٹائی کی بھٹ پھر سے لُٹ رہی ہے
آریسر کو ایسا محسوس ہوتا کہ پھر بھٹائی کے کلام میں انجینئیرنگ ہورہی ہے
آریسر کو اپنے اوپر کیا وردی والوں کا تشدد یاد آتا، گالیاں یاد آتیں، اندرہ کا پیچھے بابا کہہ کر دوڑنا یاد آتا، وہ شعور کی آنکھ سے دیکھتا کہ اسے وردی والے گالیاں دے رہے ہیں اور سامنے کھڑی سندھ مسکرا رہی ہے۔
اسے بشیر قریشی کے زخمی زخمی پیر یاد آتے، وہ دیکھتا کہ سندھو سوکھتا جا رہا ہے۔ وہ دیکھتا کہ سندھو کے کانرے سُکڑ رہے ہیں۔ وہ دیکھتا کہ سندھو کے کانرے جل رہے ہیں۔ وہ دیکھتا کہ سرکا ری ادیبوں کی طویل فہرست ہے اور اس فہرست میں جامی چانڈیو کا نام صفِ اول پہ لکھا ہوا ہے اور وہ بہت سوچتا ہے کہ جامی چانڈیو سندھ کا مسیحا ہے یا درباری؟
وہ دیکھتا کہ سندھو کے کنارے پہ لگے ببر کے درخت جل اُٹھے ہیں جب کوئی تھری ماں آریسر سے کہتی ہے کہ
،،سائیں وہ تو ہماری بھوک مٹانے شہر گیا تھا وہ میرا بچہ ہے، میں اسے جانتی ہوں کہ وہ فاقے کے دنوں میں روٹی چرا کر نہیں کھاتا تھا اب تو اس کا پیٹ بھرا ہوا ہے وہ چوری نہیں کریگا!،،
آریسر دیکھتا ہے کہ بہت کوشش کے باجود جمن در بدر سے شاعری نہیں ہو رہی
آریسر دیکھتا ہے کہ لاکھ کوشش کر چکا حلیم باغی پر اس سے کوئی شعر تخلیق نہیں ہورہا
آریسر دیکھ رہا ہے کہ جو بھی سُر چھیڑتا ہے، شفیع فقیر وہ سُر کہیں اور نکل جاتا ہے
آریسر دیکھتا ہے کہ لطیف کے حافظ لطیف کو بھول بیٹھے ہیں اور اب دیوانہ ہورہے ہیں
آریسر دیکھتا ہے کہ لطیف خود اپنے ہاتھوں سے اپنا نسخہ دریا برد کر رہا ہے!
آریسر دیکھتا ہے کہ تھر کے سبھی چونروں کو آگ لگ گئی ہے
تھر کیا
لاڑ، اتر کیا
کاچھو
سندھ جل رہا ہے
اور درباری ادیب لطیف کو بہت یاد کرکے بڑے شہروں میں لطیف کانفرنسوں میں شریک ہو رہے ہیں۔
آریسر دیکھتا ہے کہ جامی چانڈیو لطیف کے بیت یاد کرکے پلیجو کے اسٹائل میں اپنے ہاتھوں کو حرکت دے رہا ہے۔ وہ بہت، یہ بیت، جدائی کا بیت،غم کا بیت، اپنوں کے ملن کا بیت، اپنوں کی جدائی کا بیت، تھر کا بیت، تھری لوگوں کا بیت، اور لوگ ہیں جو واہ واہ واہ کی صدا لگا رہے ہیں۔
آریسر دیکھتا ہے کہ جامی چانڈیو وہاں یہ بات مشہور کر رہا ہے کہ پنجاب نے اس پر پنجاب داخلے پر پابندی لگا دی ہے۔
آریسر دیکھ رہا ہوتا ہے کہ جامی چانڈیو کی بیوی پر بے نظیر چئیر کی ڈاریکٹر ہونے پرکروڑوں روپوں کا غبن کا الزام لگتا ہے اور جامی چانڈیو اپنے تعلقات استعمال کر کے اپنی بیوی کے حق میں بی بی سی کے وسعت اللہ سے بی بی سی پر کالم لکھوا رہا ہے۔
آریسر تھر کے چونرے میں ہوکر بھی چونرے میں نہیں ہوتا
سگریٹ مسلسل جل رہی ہوتی ہے، کتاب کے اوراق ہوا سے پلٹ رہے ہو تے ہیں
وہ تھری پھر آریسر سے کہتا
،،سائیں سندھ کے دانشور جامی چانڈیو نے چوری کے الزام میں ایک معصوم چھوٹے تھری بچے کو لاک اپ میں بند کرا دیا ہے،،
آریسر اپنے خیالوں سے واپس آتے اور کہتے
،،سنو! تھری دو کام زندگی میں کبھی نہیں کریگا
وہ کبھی کسی سے اپنے دکھوں کی شکایت نہیں کریگا
تھری کسی بھی حال میں چوری نہیں کریگا
اور وہ تو معصوم بچہ ہے۔ اسے نہ تو نوٹوں کی خبر ہے
اور نہ ہی چوری کی
جاؤ
جاؤ
جاؤ
اس سرکا ری درباری ادیب سے کہہ دو
تم بے شرم ہو
تم بے حیا ہو
جامی چانڈیو! تم بہت ہی بے شرم ہو!،،
اور آریسر چونرے سے نکل کر کارونجھر کو دیکھتا ہے، وہ کارونجھر غم اور غصے میں اور زیادہ گلابی ہوچکا ہوتا ہے
اور آریسر سوچتا ہے کہ جامی کی بیوی کے غبن پہ تو گڑنگ صحافی بہت بڑا پلیٹ فارم استعمال کر کے لکھتے رہے ہیں اس تھری بچے پر کون لکھے گا جس کی ماں بس یہ جانتی ہے کہ وہ کمانے گیا ہے اور پیسے بھیجے گا، جس سے وہ جو نہیں گندم کھائیں گے۔
اور گندم آٹا نہیں مٹھائی ہے
اور آریسر کی آنکھوں سے آنسو گر پڑتے ہیں
اور اسے یاد آتے ہیں بشیر خان قریشی کے گھائل پیر
اور اسے یاد آتا ہے اپنے اوپر بہت سا تشدد
اور وہ سب گالیاں جو اس نے سندھ کے عشق میں سہیں تھیں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔