آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
جب سیاست دانوں کی بچیاں اچھا سا ناشتہ کیئے ہاتھوں میں لنچ باکس لیے اپنی ماما کی اپنے معصوم گالوں پہ کسِ لیے ڈرائیور کے ساتھ اسکول جا تی تھیں جب مقدس اپنے بابا کی بازیابی کے لیے اداس کیمپ میں بیٹھی رہتی تھی۔
جب وردی والوں کی بچیاں اپنے بابا کے کاندھوں پہ سوار ہو کر اسکول جایا کرتی تھیں، جب مقدس کے مسنگ پرسن کے کیمپ میں یہ آس لیے بیٹھی رہتی تھی کہ شاید کہ بابا لوٹ آئے؟
جب بیرو کریٹوں کی بچیاں اپنی کلاس میں پاس ہوکر اگلی کلاس میں جانے سے پہلے اپنے بابا سے گفٹ کا تقاضہ کرتی تھیں تو معصوم مقدس اپنے معصوم ہاتھوں سے اپنے بابا کی پرانی فریم شدہ تصویر صاف کرتی کہ جس کا پرنٹ بھی مٹ رہا ہوتا تھا۔
جب بلوچستان کے امیر لوگوں کی بچیاں صبح صبح مسنگ پرسن کے کیمپ کے پاس سے گزرتی تھیں تو مقدس کو چپ لگ جاتی تھی۔ مقدس کو اسکول جانا تھا۔ اسے پڑھنا تھا۔ ریاست نے اس معصوم بچی کو مسنگ پرسن کے کیمپ میں لاکر بٹھا دیا۔
جب ہم جیسوں کی بچیاں گرمی میں اے سی کے ٹھنڈے کمروں میں مزے سے موبائل فون پر پب جی گیم کھیلا کرتی تو یہاں کراچی سے بہت دور کوئٹہ کی گرمی اور لوُ میں ایک معصوم بچی سخت دھوپ میں اپنے بابا کی بازیابی کے لیے اس اداس کیمپ میں بیٹھی رہتی جہاں جوان بھی بیٹھنے سے کتراتے ہیں
ریاست دشمن کے بچوں کو پڑھائے گی
پر بلوچوں کے بچوں کو خوار کر کے اداس مسنگ پرسن کے کیمپوں تک لائیگی کہ یہ یہیں سڑتے رہیں
مقدس بھی اپنے بابا کی بازیابی کے لیے گذشتہ چار سالوں سے ان ہی کیمپوں میں رُل رہی تھی
اور ریاست بے خبر تھی؟
جب سخت سردی میں ہمارے بچے اچھے اچھے نئے سویٹروں کا تقاضہ کرتے ہیں اور مائیں بہت اچھے سے اور احتیاط سے ان بچوں کو اسکول بھیجتی ہیں کہ کہیں یہ سردی میں بیمار نہ ہو جائیں۔
جب کراچی سے کئی کلومیٹر دور سخت سردی میں مقدس مسنگ پرسن کے کیمپ میں سردی سے ٹھٹھرتی رہی اس لیے کہ گھر میں بابا موجود نہیں تھا اور کون تھا جو بابا کو تلاشتا اس لیے مقدس دالبندین سے چلی اور کوئٹہ میں دکھ بن کر ٹہر گئی۔ مقدس معصوم بچی ہے اور اس پر دکھوں کا پہاڑ گرادیا گیا ہے۔
ریاست اسے اسکول نہ بھیجتی، ریاست اسے پڑھاتی بھی نہیں، ریاست بھلے دشمن کے بچوں کو پڑھائے
پر ریاست اس سے اس کا بابا تو نہ چھینتی جو بابا اسے خود ہی اسکول بھیجتا اور خود ہی پڑھاتا
معصوم مقدس اپنے بابا کی بازیابی کے لیے گذشتہ چار سالوں سے روڈوں پہ رُل رہی تھی۔ اس کی عمر ہی کیا ہے؟ اسے تو ابھی پو رے دانت بھی نہیں آئے۔ رات کیا ابھی تو وہ دن میں بھی ڈرتی ہے۔ تنہائی کیا وہ تو ابھی ہجوم سے بھی خوف زدہ ہو تی ہے۔ وہ تو دن میں بھی ماں کا دامن تھامیں سوتی ہے۔ اس کے ہاتھوں میں صدا ماں کا پلو رہا ہے۔ پر ریاست نے اس معصوم بچی کے ہاتھوں میں اپنے گم شدہ بابا کی تصویر تھما دی اور وہ بھی اس تصویر کو ایسے اپنے ساتھ لیے پھرتی ہے جیسے معصوم بچے اپنے ساتھ دودھ کا فیڈر لیے گھومتے پھرتے ہیں
اس کی عمر اتنی ہے، جتنی عمر میں مائیں بچوں کو گھروں سے دور نہیں جانے دیتیں۔ اگر بچے گھر سے نکل جاتے ہیں تو ماؤں کو فکر لاحق ہو جاتی ہے پر معصوم مقدس تو چار سالوں سے گھر سے باہر تھی۔ ریاست کو اس بچی کا یوں گھر سے باہر رہنے پر فکر مند ہونا چاہیے تھا پر ریاست بے فکری رہی!
اور بہت دور
نہ سحر ہوتی تھی
نہ خبر آتی تھی!
جب دیس کی بچیاں اپنے گم شدہ باباؤں کی منتظر ہوں۔ رُل رہی ہوں۔ دربدر ہوں۔ رُل ہی گئی ہوں
تو ایسے ڈھونگ، ایسے ڈرامیں کہ
،،ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے!،،
زیا دہ دیر تک نہیں چل سکتے۔
جب ہم اپنے دیس کی معصوم سی بچیوں کے ہاتھوں سے بستے چھین کر، کتابیں چھین کر، لنچ باکس چھین کر ان کو اسکولوں سے دربدر کر کے ان کو اسکولوں سے ہٹا کر ان کو مسنگ پرسن کے کیمپوں میں لاکر بٹھادیں گے تو کیا ایسی باتیں ہما رے کانوں کو خیرا کر سکتی ہیں کہ
،،ہمیں دشمن کے بچوں کو پڑھانا ہے!،،
چار سال سے گم حفیظ اللہ محمد حسنی کے یوں مسخ شدہ لاش ملنے پر کئی سوال اُٹھتے ہیں
جن میں سے تین بڑے سوال یہ ہیں کہ
کیا اس دیس میں زندگی یا زندہ رہنا جرم ہے؟
کیا بلوچ بیٹیوں کو یہ حق نہیں کہ ان کے بابا حیات رہیں؟
کیا بلوچ بیٹیاں اسکول نہیں جا سکتیں؟
ویسے تو یہ مسخ شدہ لاش کئی سوال لائی ہے۔پر ہم میں نے سوال پوچھنے کی جرئت ہے اور نہ جواب تلاش کرنے کی ویسے ہوبھی شمالی علائقہ جاتا کی سیر مفت میں دستیاب ہے۔
مقدس بلوچ کا بابا مسخ شدہ لاش کی صورت میں مل گیا
کیا مقدس بلوچ کا انتظار اپنے انجام کو پہنچا یا یہ مسخ شد ہ لاش اور کئی انتظار دے گئی ہے
یہ لاش تو مقدس اور اس کی امی کو اشک دے گی
اور اشکوں سے انتظار نہیں جاتا!
کاش مقدس کو کہنا آتا
کاش مقدس اپنے غم کو اظہار سکتی
کاش مقدس بولنے کی اداکا ری کر سکتی
کاش وہ میڈیائی کیمرے دیکھ کر کچھ تو کہتی
کاش اسے بولنے پر قدرت ہوتی اور ایسا بولتی جیسے لکھے الفاظ ہو تے ہیں، جیسی کتابیں ہو تی ہیں، جیسے لکھے مضامین ہوتے ہیں، جیسے کہے درد ہوتے ہوں تو جب کوئی حفیظ اللہ محمد حسنی کی بیوی اور مقدس کی امی سے کچھ پوچھا جاتا تو مقدس آگے بڑھ کر ماں کو خاموش کراتی اور خود ہی گویا ہو تی کہ
ّ،،آج کچھ درد میرے دل میں سوا ہوتا ہے!،،
مقدس کا درد
حفیظ اللہ محمد حسنی کا گم ہوجانا
ماں کا رونا
اور اس محبوبہ کی بے چینی
انتظار ہی تو تھا
جو آج مسخ شدہ لاش کی صورت میں اپنے اختتام کو پہنچا
اور بس
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔