اسے مت جگاؤ! – محمد خان داؤد

120

اسے مت جگاؤ!

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

یہ پہاڑوں کے درمیاں ایسے سو رہا ہے، جیسے ماں کسی روتے بچے کو اپنی گود میں لیے اس کے معصوم منہ میں دودھ سے بھرا پستان دے اور وہ بچہ میٹھے دودھ کی چسکیاں لیتے لیتے سوجائے!
یہ پہاڑوں کے درمیاں ایسے سو رہا ہے جیسے لب کسی کا محبت سے نام پکاریں اور آپ ہی محبت میں مل جائیں!
یہ پہاڑوں کے درمیاں ایسے سو رہا ہے، جیسے کوئی محبوبہ کو پہلی بار اپنی بہانوں میں بھرے
جیسے کوئی پہلی بار محبوبہ کے لب چومیں
جیسے کوئی پہلی باراپنی بانہیں کھولے اور محبوبہ ان بانہوں میں ایسے سما جائے جیسے خوشبو بدن میں سما جاتی ہے
یہ پہاڑوں کے درمیان ایسے سو رہا ہے، جیسے کسی محبوبہ کا انتظار کرتا عاشق
یہ عاشق ہے، اور آزادی اس کی محبوبہ!
یہ پہاڑوں کی بلندی پر ایسے ہرگز نہیں سو رہا، جیسے چرواہے سوتے ہیں
پر یہ ان بلند و بالا پہاڑوں پر ایسے سو رہا ہے جیسے عاشق سوتے ہیں
اس نے بندوق کی گھن گھرج بہت سن لی اب اسے تتلیوں کے رنگ دیکھنے دو، چاند کی چاندنی میں نہانے دو، خوشبو کے پیچھے بھاگنے دو
تتلیوں کے رنگ!
چاند کی چاندنی
اور خوشبو کیا ہیں؟
آزادی
اسے آزادی کے سپنوں کے بیچ سونے دو

یہ ان پہاڑوں کے درمیاں ایسے سو رہا ہے، جیسے پنہوں سسی کی بانہوں میں سویا تھا، اور سسی کی خوبصورت گوری چھاتیوں پہ چاہت کے بوسے دیئے تھے۔ چاند سا چہرہ اور سیاہ بادلوں جیسے بالوں سے پیار کیا تھا۔
یہ بھی آج کا پنہوں ہے اور سسی بلوچستان
اسے اپنی سسی کے سینے پہ سر رکھ کے سونے دو!!
جب آزادی کے عاشق تھکے ماندے چہروں اور مسافر پیروں سے سوتے ہیں
تو چاند ان کا دیدار کرنے آتا ہے اور چاندنی ان کے مسافر پیر دھوتی ہے
یہ سو رہا ہے، چاند اس کا دیدار کر رہا ہے اور چاندنی اپنے نور سے اس کے مسافر پیر دھو رہی ہے اور پھر اپنی سیاہ زلفوں سے ان پیروں کو خشک کریگی۔
اسے سونے دو!

یہ ان پہاڑوں کے درمیاں ایسے سو رہا ہے جیسے جوان ہوتے لڑکوں کو پہلی بار لڑکیوں میں کشش محسوس ہو اور وہ نیند میں جاگیں اور جاگ میں سوتے رہیں۔
اس نے اپنے ہاتھوں میں بندوق بہت تھامی ہیں، آج اسے اپنے ہاتھوں میں وہ زلفیں تھامنے دو
جسے وہ دیس کی آزادی کی جنگ میں بہت پیچھے چھوڑ آیا
آج وہ بندوق اس کے سرہانے رکھی ہے۔ اس کے دونوں ہاتھ آزاد ہیں
اور وہ ان ہاتھوں سے اس چہرے کو چوم رہا ہے
جو چہرہ ہو بہ ہو آزادی جیسا ہے
اور وہ اس چہرے اور آزادی کے لیے اپنی جان دینے گھر سے چلا ہے
آج بندوق سرہانے رہییگی اور محبت ہاتھوں میں رہیگی
اسے نیند میں یہ ڈر ہے کہ اس کے ہاتھوں سے محبت پھسل نہ جائے اس لیے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں سے محبت کو تھاما ہوئے ہے اور محبت ہے جو سِرک کر اور اس کے قریب آ گئی ہے۔
محبت لبوں کا بوسہ لے رہی ہے
محبت پسینہ پسینہ ہو رہی ہے
محبت جلدی جانے کی ضد کر رہی ہے
اور وہ اپنے ہاتھوں میں
چاندی،خوشبو،اور رنگ اس کی مانگ میں بھر رہا ہے
یہ منظر دیکھ کر خاموش پہاڑ صدیوں سے رُکے پتھروں کو دیکھ رہا ہے، جو محبت کو اتنے قریب سے دیکھ کر لرز رہا ہے اور وہ خاموش پہاڑ اس پتھر کو سمجھا رہا ہے کہ
,, men must endure
Their going hence, even as their coming hither
Ripeness is all,,
،،انسانوں کو برداشت کرنا چاہیے
ان کا جانا اور ان کا لوٹ آنا
ان کا پیار سے بھر جانا ہی سب کچھ ہے!،،
اسے مت جگاؤ! یہ اپنی محبت کو اپنی محبت میں نہلا رہا ہے
یہ انگریزی مقولہ بکواس ہے کہ
,,everyone kills the things he love,,
،،ہر کوئی اس شے کو قتل کرتا ہے جس سے اس کو محبت ہے!،،
پر یہ سرمچار!
خوابوں کو قتل نہیں کر رہا
سپنوں کا قتل نہیں کر رہا
آزادی کو قتل نہیں کر رہا
محبت کو قتل نہیں کر رہا
اور ایک سرمچار محبت ہی کس سے کرتا ہے؟
خواب،سپنے،آزادی،دیس،محبت!،،
یہ ان بلند و بالا پہاڑوں پہ تھک کہ نہیں سویا،یہ تو بندآنکھوں سے دیس کی آزادی دیکھ رہا ہے
یہ پہاڑوں کے بیچوں بیچ ایسے سو رہا ہے، جیسے کوئی سالوں بعد کسی کو جھپی پائے اور اس کے دل سے یہ آواز ابھرے
،،اور قریب آؤ!،،
اسے مت جگاؤ! یہ آزادی کے بہت قریب ہے

اسے سونے دو اس کے ہاتھوں نے بہت بارود برداشت کیا ہے۔ اسے سونے دو اس کے پیروں نے بہت مسافت طے کی ہے۔ اسے سونے دو اس کی آنکھوں نے بہت سا رتجگا برداشت کیا ہے۔ اسے سونے دو اس کی آنکھیں ہی نہیں پر اس کا دل اور روح بھی جا گی ہے
اب اسے دل
اور روح سے سونے دو
اسے سپنوں کے دیس جانے دو
جہاں اپنا دیس ہے
جہاں اپنی دھرتی ہے
جہاں اپنی سکھی ہے
جہاں سکھی جیسی آزادی اور آزادی جیسی سکھی ہے
وہ ان پہاڑوں کے درمیاں سو رہا ہے، اس کی نیند اور نیند میں سپنے ایسے ہی ہیں، جیسے ٹی ایس ایلٹ کی نظم waste landکی یہ لائینیں کہ
I see crowds walking round in a ring
A crowd flowed over London Bridge, so many
I had not thought death had undone so many,,
،،میں لوگوں کے ہرشام دیکھتا ہوں
ایک ہجوم لنڈن برج پہ سے رواں دواں ہے
میں نے تو یہ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ
میں نے اتنوں کو مار کے مات کیا ہے!،،
اسے سونے دو
اسے مت جگاؤ
یہ آزاد بلوچستان کے خواب دیکھ رہا ہے!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔