جھڑپوں میں مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 95 تک جا پہنچی ہے جن میں 11 شہری بھی شامل ہیں۔ آذربائیجان کے نو اور آرمینیائی کے دو شہری مارے گئے۔
آذربائیجان اور آرمینیا کی فوجوں کے درمیان پیر کو بھی شدید لڑائی جاری رہی جس کے بعد طویل عرصے سے دشمن چلے آنے والے ملکوں کے درمیان لڑائی بند کرنے کی عالمی اپیلوں کے باوجود علاقائی طاقت ترکی کی جانب سے جارحانہ بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف کے مطابق آرمینیا کی وزارت دفاع کے ترجمان آرٹسرن ہووہانیسیان نے کہا ہے کہ آذربائیجانی فوج نے پیر کو جنوبی اور شمال مشرقی علاقوں میں کاراباخ کی اگلی صفوں پر بڑا حملہ کیا۔ جبکہ کاراباخ کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ پیر کی شام ہونے والے حملے میں اس کے مزید 26 فوجی ہلاک ہوگئے جس سے علیحدگی پسندوں کی فوجی ہلاکتوں کی تعداد 84 ہو گئی ہے۔
مجموعی طور پر ہلاکتوں کی تعداد 95 تک جا پہنچی ہے جن میں 11 شہری بھی شامل ہیں۔ آذربائیجان کے نو اور آرمینیائی کے دو شہری مارے گئے۔
آذربائیجان نے کسی فوجی ہلاکت کے بارے میں نہیں بتایا لیکن آرمینیائی علیحدگی پسند عہدے داروں نے فوٹیج جاری کی ہے جس میں جلی ہوئی بکتربند گاڑیاں اور کیموفلاج یونیوفارموں میں فوجیوں کی خون آلود اور جلی ہوئی باقیات دکھائی گئی ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ یہ آذربائیجان کے فوجی تھے۔
آذربائیجان کے صدر الہام علیئف نے پیر کو فوج کو جزوی طور پر متحرک کرنے کا حکم دیا تھا اور جنرل میس برخداروف نے اعلان کیا تھا کہ ان کی فوج دشمن کی مکمل تباہی اور فتح کے لیے خون کے آخری قطرے تک لڑے گی۔ آرمینیائی اور آذربائیجان دونوں نے ایک دوسرے پر جنگ کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔
دوسری جانب سفارت کاروں نے اے ایف پی کو بتایا ہے کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان لڑائی کے مسئلے پر غور کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس آج (منگل کو) ہو رہا ہے۔
ادھر ترک کے صدر رجب طیب اردوغان نے مطالبہ کیا ہے کہ آرمینیا کاراباخ پر اپنا قبضہ ختم کرے۔ ان کا کہنا تھا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ نگورنوکاراباخ پر قبضے کے بعد علاقے میں جو بحران پیدا ہو گیا تھا اسے ختم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ اب آذربائیجان کو معاملات اپنے ہاتھ میں لینے ہوں گے۔
دوسری طرف روسی حکومت کے ترجمان دمتری پیسکوف نے کہا ہے کہ روس کی علاقائی صورت حال پر گہری نظر ہے اور اس کی موجودہ ترجیح لڑائی بند کروانا نہ کہ اس معاملے سے نمٹنا کہ کون غلط اور کون صحیح ہے۔
آرمینیا نے ترکی پر الزام لگایا ہے کہ وہ آذربائیجان کی مدد کے لیے کرائے کے فوجی بھیج رہا ہے۔ جنگ پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم نے پیر کو کہا ہے کہ ترکی نے شمالی شام سے تین سو جنگجو بھیجے ہیں جو آذربائیجانی فورسز میں شامل ہوں گے۔
برطانیہ میں قائم انسانی حقوق پر نظر رکھنے والی شامی تنظیم کے سربراہ رمی عبدالرحمان نے کہا ہے کہ ترکی نے جنگجوؤں کو بتایا ہے کہ انہیں آذربائیجان میں سرحدی علاقوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی جائے گی جس کے لیے دو ہزار ڈالر تک معاوضہ دیا جائے گا۔
یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی جب یورپی یونین نے علاقائی طاقتوں کو خبردار کیا کہ وہ آرمینیا اور آذربائیجان کی لڑائی میں مداخلت نہ کریں۔ یورپی یونین نے علاقائی استحکام کے لیے خطرہ بننے والی سنگین لڑائی کی مذمت کی ہے۔
یورپی یونین کے علاوہ روس، فرانس، جرمنی، اٹلی اور امریکہ نے بھی دونوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی پر زور دیا ہے۔
آرمینیا کی وزارت دفاع کے ترجمان شوشن سٹپانیان نے کہا ہے کہ آرمینیا کی علیحدگی پسند فورسز نے وہ ٹھکانے واپس لے لیے ہیں جن پر اتوار کو آذربائیجان نے قبضہ کر لیا تھا لیکن آذربائیجان نے مزید پیش قدمی کا دعویٰ کیا ہے۔
آذربائیجان کی وزارت دفاع نے کہا ہے کہ آذربائیجانی فورسز دشمن کے ٹھکانوں پر حملے کر رہی ہیں اور تالش نامی گاؤں کے اردگرد کے کئی اہم ٹھکانوں پر قبضہ کر لیا گیا ہے۔ وزارت نے آرمینیائی فوج پرترتر کے قصبے میں شہری اہداف کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے مزید کہا ہے کہ دشمن پسپا ہو رہا ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان دہائیوں سے لسانی آرمینیائی علاقے نگورنوکاراباخ پر تنازعے کا شکار ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تازہ لڑائی کا آغاز جولائی 2016 میں ہوا تھا۔
نوے کی دہائی میں جنگ کے بعد نگورونوکاراباخ نے آذربائیجان سے آزادی کا اعلان کر دیا تھا۔ اس لڑائی میں 30 ہزار انسانی جانیں گئی تھیں۔ تاہم آرمینیا سمیت کسی ملک نے نگورونوکاراباخ کو آزاد تسلیم نہیں کیا اور عالمی برادری اب بھی آذربائیجان کا حصہ سمجھتی ہے۔