ہمیں متحد ہونا ہوگا
تحریر۔ ایمان لغاری بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
بلوچ قوم کی نسل کشی ایک ” سسٹمیٹک جینوسائڈ” کے طرز پر جاری ہے، اس طرح کی نسل کشی میں پورے قوم کو علاقائی سطح پر تقسیم کرکے، مختلف Ethnic group کی شکل دے کر ختم کیا جاتا ہے، اب اگر اس پالیسی کو بلوچستان و بلوچ قوم پر لاگو کرکے دیکھیں تو اس وقت بلوچ قوم کو اس طرز کی نسل کشی سے اپنے ہی خطے میں Red Indian یا دیگر آسٹریلیا کے قبائل کی طرح بنایا جارہا ہے۔ بلوچ خطے کی تقسیم کو علاقائی طور پر اگر دیکھیں تو تقسیم کچھ اس طرح کی ہے ایک علاقے کے بلوچ قبائل کا دوسرے علاقائے کے قبائل کے ساتھ کوئی مفادی سروکار نہیں اور اس ترک مفاد کی آڑ میں بلوچ قوم کی کمینونشکیشن gap اس قدر بڑھ چکی ہے کوئی دوسرے کا حال پرسی تک تیار نہیں
ڈیرہ جات کسی زمانے میں بلوچ رسم و رواج و روایات کی پاسداری و بلوچ جنگی ماہرین کا مرکز ہوا کرتا تھا، جس کی خوشحالی اس قدر عروج پر تھی ایک بیش بہا رقم ریاست قلات کو بطور ٹیکس دیتی تھی۔
اب اگر موجودہ حالت پر نظر دوڑائیں تو موجودہ حالات برعکس ہیں، ڈیرہ جات کو پنجاب کے ساتھ ملاکر یہاں کے بلوچ عوام کا مفاد پنجاب کے ساتھ ایک خاص پالیسی سے جوڑا گیا، اس منصوباتی بندر بانٹ سے آہستہ یہاں کے بلوچ قبائل اپنی زبان کے ساتھ بلوچستان کا درد وغم کھو بیٹھے۔ اسی طرح جیکب آباد و کشمور کا دردبھی راجن و ڈی جی خان کا ہمنوا ہے۔
اس بندر بانٹ کے تحت بلوچ قوم کو قبائل کی صورت میں الگ الگ بلوچ قوم کی نسل کشی کی جارہی ہے، اگر ستر کی دہائی پر نظر دوڑائیں بلوچ کے دیگر قبائل کو یہ تاثر دے کر جنگ سے دور رکھ کر مری ٹرائب کی نسل کشی کی گئی کہ یہ مری اور سرکار کا آپسی تضاد ہے، اب بھی کافی کماش ستر کی دہائی کو “مری سرکار جنگ سالی” کہہ کر پکارتے ہیں، اسی طرح اگر 2000 کے بعد دیکھا جائے تو مشرقی بلوچستان کے دیگر قبائل کو مشرف و بگٹی کی جنگ یہ تاثر دے کر بلوچ قومی جنگ سے دور رکھا گیا، اسی طرح اگر دیکھا جائے کھوسہ قبیلے کے نوجوانوں کو پولیس و کھوسہ دا مسئلہ کہہ کر بلوچ نوجوانوں کو مارا جا رہا ہے، ہمیں ان پالیسوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجا ہو کر یک مشت ہوکر دشمن کے سامنے ٹہرنا ہوگا۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔