کیا یہ مائیں جان پائیں گی کہ آج عالمی گمشدگیوں کا دن ہے؟
تحریر: محمد خان داؤد
دی بلوچستان پوسٹ
مائیں سب ایک جیسی ہوتی ہیں، سیدھی، معصوم، بے سمجھ اور ان پڑھ
سب ماؤں کی ممتا ایک جیسی ہوتی ہے، جیسے مائیں، مائیں ہوتی ہیں ویسے ہی ممتا، ممتا ہوتی ہے
ان ممتاؤں میں بولی کا کوئی فرق نہیں ہوتا، سندھی ماں کی ممتا بھی وہی ہوتی ہے اور بلوچ ماں کی ممتا بھی وہی، وسیب میں بسنے والی ماں کی ممتا بھی وہی ہوتی ہے اور دور پہاڑوں میں بسنے والی ماں کی ممتا بھی وہی ہوتی ہے۔
بلوچ ماں کا دل بھی ویسے ہی دھڑکتا ہے جیسے کسی سرائیکی ماں کا دل
اور ان ماؤں کا دل ویسے ہی ڈوبتا ہے اور ویسے ہی تیرتا ہے۔
وہ سب مائیں ایک سے اداس ہوتی ہیں۔ ان ماؤں کی فکریں بھی ایک ہیں
ان ماؤں کے آنسوؤں سے لیکر لہو رنگ بھی ایک ہے
ان سب ماؤں کی نگاہ اس خدا کی طرف اُٹھتی ہے جو کہیں چھپ گیا ہے
ان ماؤں کی آہ و بکا بھی ایک ہے
ان ماؤں کے ہاتھوں میں تھامیں بینر اور پمفلٹ بھی ایک ہیں
ان ماؤں کے ہاتھوں میں تصویریں بھی ایک ہیں
ان ماؤں کی کہانی بھی ایک ہے
بس کسی بھی ایک ماں کی کہانی سن لو جیسے کہ سب ماؤں کی کہانی سن لی۔
چاہے رمضان بلوچ کی ماں کی کہانی سنو، چاہے ذاکر مجید کی ماں کی کہانی سنو، چاہے مسعود شاہ کی ماں کی کہانی سنو، چاہے عاقب چانڈیو کی ماں کی کہانی سنو، چاہے وزیرستان کے کسی ماں کی کہانی سنو، چاہے وسیب کی کسی ماں کی کہانی سنو، چاہے بلوچستان کے کسی ماں کی کہانی سنو، چاہے سندھ کی کسی ماں کی کہانی سنو، سب مائیں ایک جیسی، سب درد ایک جیسے، سب کہانیاں ایک جیسی۔
سب ماؤں کے ہاتھ ایک جیسے، سب ماؤں کے خدا کی طرف اُٹھتی نگاہیں ایک جیسی، سب ماؤں کے دردیلے نین ایک جیسے، سب ماؤں کے شکستہ پرچم ایک جیسے، سب ماؤں کے سروں پہ میلی چادریں ایک جیسی، سب ماؤں کے اشک ایک جیسے، سب ماؤں کے ننگے سر ایک جیسے، سب ماؤں کے سفید بال ایک جیسے، سب ماؤں کی میلی مانگ ایک جیسی، سب ماؤں کے گم شدہ بیٹے ایک جیسے۔
شیکسپئیر نے کہا تھا نام میں کیا رکھا ہے؟
پر میں کہتا ہوں عمر میں کیا رکھا ہے؟
کسی ماں کا ذاکر اٹھائیس سال کا تھا، کسی ماں کا عاقب بائیس سال کا تھا، کسی ماں کا حمل تیس سال کا تھا، کسی ماں کا رسول بخش اکیتیس سال کا تھا، کسی ماں کا نقیب اٹھارہ سال کا تھا۔
درد ایک جیسا
دن رات ایک جیسی،
ماہ سال ایک جیسے،
آدھی رات کو چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرنا ایک جیسی
کسی روتی ماں کا سندھی، بلوچی، سرائیکی، پشتو، براہوی میں منتیں کرنا
،،میرے بیٹے کو چھوڑ دو، میرے بیٹے کو مت مارو، میرے بیٹے نے کچھ نہیں کیا!،،
اور پھر جاتے ہوئے اس ماں کو لانگ شوز والی ماری جانے والی لات ایک جیسی
اس ماں کو دی جانے والی گالی ایک جیسی،اور پھر عقوبت خانے ایک جیسے ان عقوبت خانوں میں ماؤں، محبوباؤں، اور بیویوں کو دیے جانے والے القابات ایک جیسے!
اس ریاست میں ماؤں کے دل توٹے ایک جیسے،ماؤں کی نیندیں ماری گئیں ایک جیسی،
مائیں دیوانی ہوئیں ایک جیسی، مائیں پاگل ہوئیں ایک جیسی، آتے جاتے لوگوں کی نظریں آر پار ہوتی ایک جیسی، ان ماؤں کے فاقے ایک جیسے، ان ماؤں کی بیماریاں ایک جیسی، ان ماؤں کے رتجگے ایک جیسے، اور ان ماؤں کا گھروں کو خیرباد کہنا ایک جیسا، گھروں میں گمشدہ بیٹوں کی یادیں ایک جیسی، گھروں میں گمشدہ بیٹوں کی لگی میلی پرانی تصوریں ایک جیسی، ان بیٹوں کا گھروں کے بستروں پہ آخری بار نیند کرنا ایک جیسا، ان گم شدہ بیٹوں کا بہنوں سے لڑنا ایک جیسا، ان گمشدہ بیٹوں کا گھروں میں فرمائیشی کھانا کھانا ایک جیسی، اور پھر محبوباؤں کا اپنے محبوب کی یاد میں موم بتی کی طرح پھگلنا ایک جیسا!
وہ مسافر مائیں ایک جیسی
ان ماؤں کے سفر ایک جیسے
سب ماؤں کے پیروں میں پھٹی پرانی جوتیاں ایک جیسی
سب ماؤں کے سفر ایک جیسی
اس ریاست نے معصوم ماؤں کو مسافر بنا دیا، وہ مائیں جو کچھ نہیں جانتی، وہ مائیں جو نہ کسی سیاسی جماعت کو جانتی ہیں اور نہ ہی ان جماعتوں کے کسی منشور کو!
یہ مائیں، وطن پرست، قوم پرست،علحیدگی پرست جیسے تہمات سے واقف نہیں
ان مسافر ماؤں کا تو کوئی وطن بھی نہیں
سفر ہے!
یہ مائیں ہیں!
اور زخمی پاؤں ہیں!
سب ماؤں کے پیروں میں چھالے ایک جیسے!
سب ماؤں کے گھر ایک جیسے، سب ماؤں کے گھروں کے درد ایک جیسے،
اور تو اور ان ماؤں کی منتظر دید بھی ایک سی ہوتی ہے، اور ان ماؤں کی روتی آنکھوں سے گھٹتی دید بھی ایک جیسی!
یہ مائیں نہیں جانتی کہ آج پو ری دنیا میں جبری لاپتہ کیے گئے لوگوں کا عالمی دن ہے۔ اور اس دن پہ خوشبو والے ٹھنڈے ہالوں میں ان بیبوں کا بلایا جائیگا، جو اپنے کپڑے ہی کیا پر اپنے سفید ہوتے بالوں پہ بھی اس طرح رنگ لگاتی ہیں کہ ان میں بھی ایک نیا طرز دکھے۔ وہ بیبیاں آج ّآئیں گی اور جبری گمشدی پر بہت کچھ کہے گی، پر کیا وہ میمیں جبری گمشدی کے اس درد سے بھی واقف ہو تی ہیں جس درد نے وسیب کی ماؤں سے لیکر بلوچستان کی ماؤں کو وقت سے پہلے بوڑھا کردیا ہے۔،اندھا کردیا ہے،بہرا کر دیا ہے
اور پاگل کر دیا ہے، شیری مزاری سے لیکر زرتاج گل تک
اور بلاول بھٹو سے لیکر مصطفیٰ نواز کھر تک کیا یہ جانتے ہیں کہ جب مائیں مسافر بن جائیں
تو دھرتی کتنے دنوں کا سوگ
اور کائینات کتنے دنوں کا ماتم کرتی ہے؟
ہوسکتا ہے کہ گمشدہ انسانوں کی جوان ہوتی بیٹیاں یہ جان پائیں کہ آج جبری لاپتہ کیئے گئے انسانوں کا عالمی دن ہے اور وہ پھر سے اپنے ہاتھوں میں اپنے باباؤں کے فوٹو لیے پریس کلبوں کے دروں اور اداس خالی سڑکوں پہ نکل آئیں اور بہت روئیں اور بہت احتجاج کریں!
پر ان ماؤں کا کیا ہے
جو منتظر دید لیئے خود بھی انتظار بن جاتی ہیں
اور جب انتظار ناقابلِ برداشت ہوجاتا ہے
تو گمشدہ بیٹوں کو نہ دیکھنے کے جرم میں بیمار ہو جاتی ہیں جب کہیں سے کوئی طبیب نہیں آتا
تو سب کچھ یہیں چھوڑ کر منتظر دید لیے چلی جاتی ہیں
پھر ان سب ماؤں کی قبریں بھی ایک جیسی!
شکستہ پرچموں جیسی
ڈوبتے دنوں جیسی
ڈھلتے سورج جیسی!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔