بلوچستان میں ریاستی جبر انسانیت، اخلاقیات، مسلمانیت، جمہوریت، پاکیزگی گذشتہ ستر سالوں سے بلوچ خون میں نہا رہی ہے۔ بلوچ وسائل کی لوٹ مار، بلوچ نوجوانوں کا قتل، بلوچ ماوں کی عزتیں تار تار ہورہی ہیں مگر کوئی میڈیا یا انسانی حقوق کا چیمپئن ان کو سامنے نہیں لاتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماما قدیر بلوچ نے لاپتہ افراد کیلئے قائم کیمپ میں کیا۔
کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4046 دن مکمل ہوگئے۔ خضدار سے سیاسی و سماجی کارکن عبدالباسط بلوچ، نور محمد بلوچ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ انسانی حقوق کے علمبرداوں کی خاموشی کے باعث ہزاروں خواتین اور بچوں کی چیخین دب کر گم ہوگئیں۔ پنجگور گچک میں آٹھ دن تک جاری پاکستانی فوج کی بربریت کی داستان بیان کرنے والا کوئی نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ گچک آپریشن میں جس طرح مسلسل آٹھ روز تک لوگوں کو محاصرے میں رکھ کر ان کے گھر اور کھیت جلائے گئے اور خواتین و بچوں کو حراست میں لیکر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کی مثال شاید ہی کئی ملے۔ فوجی آپریشن کے دوران گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مسلسل شیلنگ جاری رہی جس کے باعث لوگوں کو مالی نقصانات اٹھانے پڑیں جبکہ جانی نقصانات کا خدشہ بھی ہے۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ ایک ایسی ریاست جہاں بندوق بردار جب بھی چائیں کسی بھی ماں سے اس کا لخت جگر چھین سکتے ہیں اور انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے تو وہاں لاقانونیت ہی قانون کا دوسران نام بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی کی انسانی حقوق کی تنظیمیوں کی حب الوطنی کو سلام ہے کہ جو اپنے محافظوں کی تقدس کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان کی تکریم میں کمی کے خوف کے باعث کبھی بھی آواز نہیں اٹھائی۔