بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4052 دن مکمل ہوگئے۔ سبی سے درد محمد دیپال، حضور بخش، نظر محمد اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ موجودہ حکومت بننے کے موقع پر پانچ لاپتہ بلوچ فرزندوں کی تشدد زدہ لاشیں ویرانے میں پھینکنے کی شکل میں تھا اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ صوبائی حکومت کی لگام ان کے اپنے ہاتھوں میں ہے تو کیا پھر ان شہید بلوچ فرزندوں کے اغواء اور قتل کا بھی انہیں اعتراف نہیں کرلینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ اگر ایسا نہیں ہے تو انہیں اپنے بلوچ کش حکومت کو خیرباد کہتے ہوئے بلوچ قوم کی صدائے پرامن جدوجہد میں اپنی آواز ملانی چاہیے مگر ان کے رفقاء کا فکر عمل ظاہر کررہا ہے کہ وہ بلوچ نسل کش کاروائیوں اور سازشوں میں حصہ داری سے الگ نہیں رہ سکیں گے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ تمام تر رسوائیوں اور ناکامیوں کے باوجود از خود حکومت سے الگ ہونا انتہائی مشکل نظر آتا ہے جبکہ بلوچ پرامن جدوجہد میں بڑھتی ہوئی شدت سے یہ قوی امکان ہے کہ بلوچستان اور پنجاب حکومت سیاسی استحکام اور بلوچ سماج میں قبولیت حاصل نہیں کرسکیں گے۔
انہوں نے کہا کہ انہیں بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی جبری گمشدگیوں کا اعتراف کرکے انہیں رہا کرنا پڑے گا۔