چودہ اگست جشن آزادی یا ماتم غلامی؟
تحریر: شہیک بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مداری کے ڈگڈگی پر ناچنے والے بندر کی اوقات کرتب دکھانے سے زیادہ کچھ نہیں ہوتی، تماش بین تماشہ دیکھتے ہیں۔۔۔ تماشہ ختم ہوجاتا ہے اور پیسے مداری کی جیب میں چلے جاتے ہیں اور بندر تماشہ کرنے والا بندر ہی رہ جاتا ہے۔
اس ریاست کے گل خانوں کی اوقات بھی ڈگڈگی پر ناچنے والے بندروں سے زیادہ کی نہیں بلکہ یہ اس سے بھی کہیں زیادہ شرمناک حد تک پست ذہنیت کے شکار غلام ہیں۔ چودہ اگست کو منانے سے لے کر ریاست کی ہر مکروہ عمل میں حصہ داری تک یہ بندر ڈگڈگی پر ناچنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
خواہ بلوچ سردار و معتبر ہوں یا پشتون کاروباری سب کے سب ریاست کے لیے تماشہ لگاتے ہیں جبکہ ریاست منافع اپنے جیب میں ڈال کر ان کے سامنے چند ٹکڑے پھینک دیتا ہے اور یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔
چودہ اگست کو منانے کا پس منظر کیا ہے؟ کیا اس کی کوئی شعوری وضاحت پیش کی جاسکتی ہے؟
جشن آزادی کیسی؟ کون آزاد ہے؟
ریاستی فوج کو تو جشن منانا چاہیے کہ لوگوں کی ہڈیاں چبا کر کھانے تک کی آزادی ان کو حاصل ہے لیکن محکوم اقوام کونسی آزادی کا جشن منائیں؟
ہر چیک پوسٹ پر ذلیل ہونے سے لے کر بنیادی انسانی سہولتوں سے محرومی اور پھر قدم قدم پر جان کے لالے پڑے ہوں ایسی صورتحال کو کیا آزادی کا نام دیا جاسکتا ہے؟
آپ بات کرنے سے خوفزدہ ہوں وہاں آپ کو نہیں لگتا کہ اپنی ضمیر کی موت کا ماتم کرنا چاہیے؟
پچھلے اڑسٹھ سالوں میں ایسا ملا کیا ہے کہ جس کا جشن منایا جائے؟
مسخ شدہ لاشوں کا جشن منایا جائے یا لاپتہ افراد کا جشن؟
شاید کچھ لوگ ابھی بھی اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں کہ بلوچ تحریک نے جس شعور کی سطح کو حاصل کرلیا ہے وہاں خود فریبی کی کوئی گنجائش نہیں بلکہ حقیقت پسندی کیساتھ قومی منزل کا تعین کیا جاچکا ہے۔
بلوچ قوم کا نام نہاد پاکستانی جشن آزادی سے کوئی تاریخی تعلق ہی نہیں بلکہ بلوچ ، سندھی یا پشتون کی حیثیت ریاست میں ایک نوآبادی سے زیادہ کی نہیں جہاں ان قوموں کا استحصال کیا جارہا ہے اور نسلوں کو غلامی کی اگ میں جلایا جارہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس مصنوعی ریاست نے ان قوموں کی ترقی کو روکا ہوا ہے اور ان کے قومی وسائل سے خود کو توانا کررہا ہے۔ تھر میں پیاس سے مرنے والے بچے ہوں، چمن بارڈر پر شہید ہونے والے پشتون ہوں یا بلوچ دھرتی پر قربان ہونے والے فرزند وہ اس مصنوعی ریاست کی جھوٹی آزادی کو واضح کرنے کے لیے کافی ہیں کہ اس ریاست نے محکوم اقوام کو انسان ہی تسلیم نہیں کیا۔ یہ محکوم اقوام کو کھلونا سمجھتے ہیں کہ جس طرح چاہیں یہ اپنی بربریت کا کھیل کھیلیں۔
پچھلے ستاسٹھ سالوں سے یہ کھیل کھیلا جارہا ہے اور ریاست کے حواری دلال اس کے ڈگڈگی پر تماشہ کرتے آرہے ہیں لیکن محکوم اقوام کے حقیقی فرزندوں نے اپنے جدوجہد سے نوآبادکار کی حقیقت کو واضح کردیا ہے۔ بلوچ، سندھی اور پشتون کے نیشنلزم کی جدوجہد نے یہ حقیقت واضح کردیا ہے کہ ان اقوام کی نجات نوآبادیاتی نظام کے چھٹکارے کی صورت میں ہی ممکن ہے۔ پشتون کی جانب سے 14 اگست کے حوالے سے عدم دلچسپی ریاست کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔
من حیث القوم محکوم اقوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ شعوری طور پر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ ریاست کے کسی بھی تماشہ کا حصہ بننے سے گریز کرتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں شعوری طور پر جدوجہد کو منظم کرنے میں صرف کریں۔ ان تماشوں کا حصہ بننے سے بے حسی میں ہی اضافہ ہوا ہے جس کا نتیجہ کثیر تعداد میں گل خانوں کی صورت میں دیکھا جاسکتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ ریاستی تماشوں کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے مشترکہ جدوجہد کی راہ کو مزید ہموار کیا جائے اور جو ریاستی بندر ڈگڈگی پر ناچ رہے ہیں ان سے مکمل سوشل بائیکاٹ کرنا ضروری ہے۔
چودہ اگست محکوم اقوام کے لیے ایک سیاہ دن ہے جب برطانوی سامراج نے اس خطے کو اپنی غلیظ پالیسیوں کا نشانہ بناتے ہوئے محکوم اقوام کو ایک قیدخانے میں بند کرگیا۔ ایک باشعور انسان غلامی کا جشن ہرگز نہیں منا سکتا بلکہ وہ ہر ممکن کوشش کریگا غلامی سے نجات حاصل کرنے کے لیے۔
ہم ضرور آزادی کا جشن منائینگے اس وقت جب ہم اپنے دھرتی پر آزاد ہونگے اور یہ اسی وقت ممکن ہوگا جب ہم نوآبادیاتی نظام سے چھٹکارا پائینگے اور اس کے لیے ہمیں ایک طویل شعوری جدوجہد کی ضرورت ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔