بلوچ قوم پرست رہنما ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے حیات بلوچ کے قتل پر اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ حیات بلوچ کا قتل بلوچ نوجوانوں اورمستقبل کے معماروں کو نشانہ بنانے کے تسلسل کا حصہ ہے۔ ایسے گھناؤنے جنگی جرائم سے پاکستان کا مقصد بلوچ نسل کشی کے علاوہ نوجوانوں میں نفسیاتی ہیجان پیدا کرکے شکست دینے کی کوشش ہے تاکہ وہ نہ تعلیم پر توجہ دے سکیں اور نہ ہی قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرسکیں۔ پاکستان بلوچ نوجوانوں کو تعلیم و آگاہی سے دور رکھنے کے لئے کثیرالجہتی جارحیت پر عمل پیرا ہے۔ اس میں نوآبادیاتی تعلیم سے نوجوانوں کی ذہنی طورپرمفلوج کرنا، سکول، کالج و یونیورسٹی پر قبضہ کرکے انہیں فوجی چوکی میں تبدیل کرنا شامل ہے۔ اس کے علاہ ہزاروں بلوچ طالب علم ریاستی افواج کے ہاتھوں قتل اور ہزاروں زندانوں میں ہولناک اذیت سہہ رہے ہیں۔
ڈاکٹر اللہ نذربلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کے ہولناک اور لرزہ خیز قتل کے بعد بلوچ قوم کا رد عمل فطری ہے۔ بلوچ قوم نے ہزاروں فرزندوں کی قربانی دیکر بلوچ قومی وجود کو زندہ رکھا ہے۔ ہماری شناخت، ثقافت اور زبان کو ختم کرنے کیلئے پاکستان نے تمام حربے آزمائے ہیں۔ یوں بلوچ نسل کشی کے ساتھ زبان اور ثقافت بھی خطرات سے دوچار ہیں۔ اس کیلئے پاکستان نے نہ صرف بلوچی زبان میں لکھنے اور پڑھنے پر پابندی عائد کی ہے بلکہ انگلش لینگوئج سنٹروں اور اس کے اساتذہ کو بھی مسلسل نشانہ بنایا گیا ہے۔ جو کتابیں کراچی اور لاہور کے ناشر چھاپتے ہیں، بلوچستان میں ان پر پابندی عائد ہے۔ کیچ ہی کے بک اسٹالوں سے بلوچی سمیت تمام زبانوں کی کتابیں ضبط کئے جاچکے ہیں۔ اس سے یہ اندازہ لگانا نہایت آسان ہے کہ پاکستانی ریاست بلوچوں کو تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کی کوشش میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ حیات مرزا بلوچ کا قتل اور شہادت اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کے تحت بلوچ قوم کے مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنانا اور انہیں مسلسل ذہنی دباؤ میں رکھنا تاکہ وہ اپنی تعلیم اور بلوچ قوم پر توجہ نہ دے سکیں۔ حالانکہ ہم نے نوجوانوں کو بارہا تاکید اور اپیل کی ہے کہ پاکستانی جبر کا مقابلہ کرتے ہوئے اسی نظام تعلیم میں رہنا سیکھیں اور سب پر ثابت کریں کہ نوآبادیاتی نظام تعلیم بھی بلوچ نوجوانوں میں قومی روح کو فنا نہیں کرسکتا ہے۔
ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ نے کہا کہ حیات بلوچ کے قتل کے بعد بلوچ قومی ردعمل کی شدت کو کم کرنے کے لئے ریاست کے باجگزار سرگرم ہوگئے ہیں۔ فوجی افسر اور پولیس حکام لواحقین سے مل کر فوٹو سیشن میں مصروف ہیں۔ یہ ایک جھوٹی ہمدردی ہے۔ وہ شاید بلوچ قوم کو باور کرانا چاہتے ہیں کہ یہ ایک انفرادی عمل تھا اور اس فرد کے خلاف قانون میں حرکت میں آچکی ہے۔ لیکن میں واضح کرتا ہوں کہ حیات بلوچ کا قتل ایک فرد کا جرم نہیں بلکہ ریاست پاکستان حیات بلوچ کا قاتل ہے کیونکہ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں ہے۔ اس کیلئے خون بہا یا کسی ایک فرد کو سزا دینے کا عمل بلوچ قومی جذبات سے کھیلنے کے مترادف ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچ دشمن پاکستان پرست جماعتیں بھی ایسے واقعات کو اپنے مقاصد کیلئے استعمال کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ مثلا ڈاکٹر مالک جیسے بلوچ دشمن منظر عام سے غائب ہوکر صرف اس وقت نظر آتے ہیں جب بلوچ قوم پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار اور شدید رد عمل میں ہو۔ ڈاکٹر مالک کی جانب سے شہید حیات اور دوسرے شہدا اور لاپتہ افراد کے کیس کو مسلح جد و جہد سے منسلک کرنا پاکستان کو بری الذمہ کرنے کی کوشش ہے۔ یہ مسلح جدوجہد عالمی اصولوں اور ہماری اپنی ہی سرزمین پر جاری ہے۔ آج تک بلوچ مسلح جدوجہد نے کسی بھی سطح پر عالمی قوانین یا جنیوا کنونشن کی خلاف نہیں کی ہے لیکن پاکستان روزانہ کی بنیاد پر جنگی جرائم کا ارتکاب کررہا ہے۔ ڈاکٹر مالک، بلوچ قوم کو قصور وار ٹھہرانے کے بدلے اپنے آقا کو صحیح مشورہ دیں کہ وہ ہماری سرزمین سے نکل جائے اسی میں ان کی بہتری ہے۔