نواب بگٹی کی کہانی ان کی زبانی – انور ساجدی

1112

نواب بگٹی کی کہانی ان کی زبانی

تحریر: انور ساجدی

دی بلوچستان پوسٹ

میری جائے پیدائش ”حاجی کوٹ“ ہے جو ضلع بارکھان میں ہے یہ کھیتران سردار کا ہیڈ کوارٹر ہے چونکہ ننھیال کا تعلق کھیتران قبیلہ سے تھا اس لئے میری پیدائش کے وقت والدہ محترمہ یہاں مقیم تھیں سن پیدائش 12جولائی1927ء ہے پیدائش کے چند ہفتوں بعد والد مجھے ڈیرہ بگٹی لے آئے۔

میری ابتدائی تعلیم جب میں چار پانچ سال کا تھا ڈیرہ ٹاؤن میں شروع ہوئی اس کیلئے پرائیویٹ ٹیوٹر رکھے گئے تھے ویسے تو ڈیرہ میں گورنمنٹ مڈل سکول تھا لیکن والد صاحب سرکاری سکول کی تعلیم سے مطمئن نہ تھے میری پیدائش کے سال مڈل سکول کے ہیڈ ماسٹر محمد حسن نظامی تھے ان کے بھائی محمد حسین عنقاء کاہان میں ٹیچر تھے دونوں بھائی ذہین تھے اور آگے چل کر صحافی بن گئے محمد حسین عنقاء کو سیاست کا شوق بھی تھا جس کی وجہ سے وہ خان احمد یار خان کے قریب تھے۔

گرمیوں میں ہم کوئٹہ جاتے تھے میں دو ماہ کیلئے سنڈیمن ہائی سکول کے پرائمری سیکشن میں زیر تعلیم رہتا تھا۔
یہ 1935ء کے زلزلہ سے پہلے کی بات ہے زلزلہ کے وقت ہم ڈیرہ بگٹی میں تھے جولائی 1935ء میں جب ہم کوئٹہ آئے تو شہر مکمل طور پر تباہ ہو چکا تھا ہمارا مکان پہچانا نہیں جاتا تھا اس لئے ہم ٹینٹ میں رہے مکان یہی ہے جو اس وقت میرے دادا نے لیا تھا جبکہ والد نے اس کی دوبارہ تعمیر کی۔

باقاعدہ تعلیم کا آغاز
والد صاحب نے باقاعدہ تعلیم کیلئے 1937ء میں کراچی میجر برچ کے پاس بھیجا رہائش کا انتظام ان کے گھر میں تھا مجھ سے پہلے نواب غوث بخش رئیسانی وہاں پر تھے دراصل نواب رئیسانی کی تجویز پر مجھے مسٹر برچ کے گھر بھیجا گیا وہی ہمارا گارڈین بنا سکول نزدیک تھا یہ مسز گوئنز کا پرائیویٹ سکول تھا اس میں کل 15 بچے تھے کچھ عرصہ بعد ہمارا ٹرانسفر مسز روز میر و سکول میں کیا گیا جو کیپری سینما کے قریب تھا اس سکول میں کچھ عرصہ بعد سربلند خان گچکی بھی آئے کوئی ایک سال بعد والد صاحب آئے انہوں نے ہمیں علامہ آئی آئی قاضی بیرسٹر ایٹ لاء کے گھر منتقل کیا یہاں ہمیں کراچی گرائمر سکول میں داخل کیا گیا یہ سکول کے جی اے ہال کے سامنے واقع تھا اس زمانے میں کراچی میں دوہی مشہور سکول تھے ایک گرائمر دوسرا سینٹ پٹیرک‘ علامہ آئی آئی قاضی ہماری تعلیم و تربیت کے نگران مقرر کئے گئے ان کے گھر میں بعض یتیم بچے بھی رہتے تھے میرے نمایاں کلاس فیلوز درج ذیل تھے۔

(1جام مراد علی آف ملیر
(2میر سندر خان سندرانی چیف آف بلیدی
(3 سید عبد اللہ آف کروڑ شریف
(4سید امیر حیدر شاہ (جی ایم سید کے بیٹے)
(5 میرے چھوٹے بھائی میر احمد نواز

میجر برچ کا گھر اسکول کے ساتھ ہی تھا جب مسٹر برچ ولایت گیا تو سارے بچے مسز گوئنز کے پاس رہنے لگے میں اور احمد نواز گرائمرسکول میں تھے۔

علامہ آئی آئی قاضی کی اہلیہ ایلیسا قاضی جرمن خاتون تھیں وہ بیک وقت آرٹسٹ شاعر‘ ڈرامہ نگار‘ فلاسفر‘ پلے رائٹر اور سٹوری ٹیلر (داستان گو) تھیں وہ ہر رات ڈائننگ ٹیبل پر ہمیں کہانیاں سناتی تھیں اور ہم محو ہو کر سنتے تھے ان کی ایک کہانی مہینوں تک چلتی تھی کبھی کبھار وہ سونے سے پہلے بھی ہمیں کہانی سناتی تھیں جو دراصل ایک طرح کی لوری ہوتی تھی ہماری بنیادی تربیت یہی تھی بلکہ زندگی کی بنیاد ہی یہی تھی ہماری اچھی تعلیم و تربیت میں قاضی صاحب سے زیادہ ان کی بیوی کا ہاتھ تھا میڈم ایلیسا ہر ہفتہ اپنی شاعری اشاعت کیلئے سندھ آبزرور بھیجتی تھیں۔

سنہرے دن
وہ ہماری زندگی کے سنہرے دن تھے اس وقت کراچی اتنا بڑا شہر نہیں تھا گھر کے قریب کرکٹ گراؤنڈ تھا ہم نے اپنی ٹیم بنائی کبھی کرکٹ کبھی فٹ بال کھیلتے تھے لیکن زیادہ رجحان کرکٹ کی طرف تھا ہر شام کو کھیل کود ہماری معمولات میں شامل تھا اتوار کے روز ہمیں شہر کے مختلف حصوں کی سیر بھی کرائی جاتی تھی کبھی کبھار ساحل بھی دیکھنے جاتے تھے اس زمانے میں گاڑیاں کم تھیں اس لئے بگھی میں بیٹھ کر جاتے تھے سکول اور گھر میں ڈسپلن سخت تھا میڈم قاضی سونے سے قبل یہ ضرور چیک کرتی تھیں کہ سلیپنگ گاؤن پہن کر سو رہے ہیں یا نہیں صبح جلدی اٹھنا ہوتا تھا ایک ساتھ ڈائننگ ٹیبل پر ناشتہ لگتا تھا کھانے پینے کے مغربی آداب سکھائے جاتے تھے۔

سکول سے چھٹی پر قیلولہ کی ہدایت تھی یونیفارم کے ساتھ سونا منع تھا مجھے اور بھائی احمد نواز کو الگ کمرے دیئے گئے تھے تاکہ نظم و ضبط میں فرق نہ آئے۔

والد صاحب کی وفات
1939ء کو والد صاحب ڈبل نمونیہ کی بیماری میں مبتلا ہوئے علاج کیلئے جیکب آباد لایا گیا وہیں پر انتقال کر گئیمجھے آخری رسومات میں شرکت کیلئے لے جایا گیا جہاں بلوچی روایات کے مطابق بطور سردار میری دستار بندی ہوئی بڑے بھائی والد صاحب سے اختلاف کی وجہ سے نظر بند تھے پولیٹیکل ایجنٹ سیوی (سبی) میجر اسمتھ دستار بندی میں شریک ہوئے علاقہ کا انتظام ایجنٹ ٹودی گورنر جنرل نے اپنے ہاتھ میں لیا میری کمسنی کی وجہ سے ساری جائیداد کورٹ آف وارڈ میں رکھی گئی سندھ میں کورٹ آف وارڈ کا ادارہ الگ تھا۔

سندھ میں ہماری جائیداد سانگھڑ میں تھی جو اس وقت ضلع تھرپارکر میں شامل تھا نواب شاہ اور جیکب آباد کے علاقہ ٹھل میں بھی زمینیں تھیں یہ جائیداد 1894ء میں دادا نے حاصل کی تھی۔

میرے بڑے بھائی عبدالرحمان نے والد صاحب کی حیات میں سرداری کا دعویٰ کیا تھا اور باقاعدہ بغاوت پر آمادہ ہوئے تھے اس لئے انگریزوں نے خون خزانہ سے بچنے کیلئے انہیں نظر بند کیا تھا پہلے انہیں بلوچستان کے مختلف مقامات پر رکھا جاتا تھا کبھی نوشکی‘ کبھی پشین‘ کبھی لورالائی‘ بعد میں انہیں ہندوستان لے جایا گیا اور وہ دہلی رانچی اور پٹنہ میں رہے والد صاحب کی وفات کے بعد بگٹی قبیلہ نے متفقہ طور پر میری دستار بندی کی میری بلوغت تک خان بہادر جمال خان نگران سردار یا سربراہ قوم مقرر ہوئے وہ میرے والد کے کزن تھے ادھر ہمسایہ قبیلہ کے نگران سردار دودا خان تھے میرے بھائی عبدالرحمان میری پیدائش سے پہلے عاق ہوئے تھے انگریز جب بھی میرے والد سے ناراض ہوتے تھے تو انہین علاقہ میں بلاتے تھے تاہم جب ان کی ضرورت نہ رہی تو پھر انہیں طویل عرصہ تک نظر بند رکھا۔

چیفس کالج لاہور میں داخلہ
1940ء میں واپس کراچی آیا اور تعلیم کا سلسلہ شروع کر دیا لیکن حکومت نے فیصلہ کیا کہ چیف کالج لاہور زیادہ مناسب ادارہ ہے البتہ چھٹیوں میں ڈیرہ بگٹی جانے کی بجائے علامہ آئی آئی قاضی کے پاس کراچی آتے تھے۔
کراچی میں رہائش گھر میں تھی جبکہ چیف کالج میں بورڈنگ ہاؤس تھا بلکہ کالج کے تین بورڈنگ ہاؤس تھے۔

کراچی گرائمر سکول میں کو ایجوکیشن تھا جبکہ چیف کالج میں صرف لڑکے پڑھتے تھے لڑکیو ں کے بغیر پہلے کالج میں دل نہیں لگا ویسے بھی ماحول میں بہت فرق تھا چیف کالج میں 202 سٹوڈنٹ تھے سارے راجا‘ مہاراجہ‘ جاگیردار‘ نواب‘ والیان ریاست کے صاحبزادے تھے رفتہ رفتہ یہ ماحول بھی راس آ گیا۔

چیف کالج ایک وسیع علاقہ تھا بورڈنگ ہاؤس کی زندگی ٹوٹل الگ ہوتی ہے ہندو‘ مسلمان‘سکھ سب اکٹھے تھے پرنسپل ٹیچر سارے انگریز تھے کھیلوں کے لئے مختلف میدان تھے فٹ بال‘ کرکٹ‘ ہاکی‘ ٹینس‘ نیزہ بازی اور گھڑ سواری سکھائی جاتی تھی کالج کے اندر اپنا اصطبل اور ڈیری فارم بھی تھا اسٹوڈنٹس کے سرونٹ بھی ہوتے تھے بورڈنگ ہاؤس کے پیچھے سرونٹ کوارٹر تھے بورڈنگ کامیس تھا جس میں گوشت‘ سبزی‘ دال‘ چاول اور سویٹ ڈش کھانے کو ملتے تھے۔

میس کا انتظام بہت اچھا تھا بیرے‘ چپراسی‘ مالی سب وردی میں ہوتے تھے جب ہم علامہ آئی آئی قاضی کے ہاں رہتے تھے تو اس وقت بھی تین بگٹی نوکر کام کیلئے موجود تھے لیکن چیف کالج میں انگریزوں نے کہا کہ یہاں نوکر بگٹی نہیں ہونگے بلکہ مقامی ہونگے۔

قبیلہ کے اندر بغاوت
میں 1940ء سے 44تک چیف کالج میں داخل رہا لیکن 1944ء کے آخر میں قبیلہ کے اندر بغاوت ہوئی اس لئے تعلیم ادھوری چھوڑ کر میں والد صاحب کی وفات کے بعد پہلی بار ڈیرہ بگٹی گیا یہاں میرے لئے اتالیق مقرر کئے گئے عام طور پر ریٹائرڈ افسر تربیت دیتے تھے گرمیاں کوئٹہ اور سردیاں سبی میں گزارتے تھے 1946ء میں حکومت نے مجھے مکمل سردار تسلیم کیا اور نگران سردار کی ذمہ داریاں ختم کر دی گئیں۔

کالج کے زمانے کی دلچسپ باتیں۔
ہم سب سپورٹس کے شوقین تھے میں کرکٹ اور سوئمنگ کی ٹیموں میں شامل تھا ہماری ایتھلیٹک ٹیم کو کلرز بھی ملے تھے میں نے گولہ پھینکنے کا نیا ریکارڈ قائم کیا۔
میں سوئمنگ اور پولو ٹیم کا کپتان بھی بنا 1944ء میں آل انڈیا اولمپکس میں بطور نمائندہ پنجاب حصہ لیا۔
جب کالج میں تھے تو دو سال شملہ گئے جہاں سوسن نامی صحت افزاء مقام پر قیام رہا یہاں پر ایک چھوٹی سی ریاست تھی بھگاٹ سوسن اس کا دارالحکومت تھا ریاست کے راجہ کا چچا ہمارا پرائیویٹ ٹیچر تھا اچھا مہذب انسان تھا۔
جب میں علامہ آئی آئی قاضی کے ہاں تھا تو مجھے اے کے بروہی ٹیوشن پڑھاتے تھے وہ اس وقت لاء کے اسٹوڈنٹ تھے انہیں مجھے پڑھانے کے عوض 30روپے ماہانہ ملتے تھے میرے جو دوسرے ٹیچر تھے ان میں آفتاب قاضی اور اے جی این قاضی قابل ذکر ہیں یہ علامہ صاحب کے بھانجے تھے یہ صاحب بعد میں اسٹیٹ بینک کے گورنر بن گئے ایک بھائی بے نظیر کے مالیاتی امور کے مشیر بھی تھے۔

قاضی برادران موٹر سائیکل پر آتے تھے ہم باہر نکل کر ان کی موٹر سائیکل چلاتے تھے ڈرائیونگ اس سے سیکھی لیکن ان کی موٹر سائیکل پھر چلانے کے قابل نہ رہی۔

زمانہ طالب علمی میں سیاسی اثرات
جب 1944ء میں شملہ میں تھے تو دو سیاسی رہنماؤں کے چرچے تھے گاندھی جی اور آزاد ہند فوج کے نیتا سبھاش چند ربوس اس وقت مسلم لیگ کے اتنے اثرات نہیں تھے جبکہ کانگریس سے ہر ایک واقف تھا یہ وہ زمانہ تھا جب گاندھی نے ”انڈیا چھوڑ دو تحریک“ شروع کر رکھی تھی کانگریس کے تمام بڑے لیڈر جیلوں میں تھے گاندھی کا فلسفہ عدم تشدد تھا لیکن سبھاش چند ربوس نے کال دی کہ انگروں کو مار کر طاقت کے ذریعے ہندوستان سے نکال دیا جائے ان کی کال پر نوجوانوں نے گوریلا جنگ شروع کر دی ہندوستان میں ریل کی پٹڑیاں اکھاڑی گئیں بم پھینکے گئے۔

کمسن گوریلا
سبھاش چند بوس کی تحریک سے متاثر ہو کر ہم نے سوچا کہ کیوں نہ ہم بھی کچھی کریں یہاں ریلوے کی چھوٹی لائن آتی تھی جو کالکا سے شملہ تک جاتی تھی ہمارا خیال تھا کہ ریل میں صرف گورے ہونگے لیکن دیکھا کہ اس میں دیسی لوگ بھی سوار تھے ریل ایک سرنگ سے گزر کر جاتی تھی ہم نے اس سرنگ کے منہ پر بڑے پتھر رکھے تاکہ ٹرین الٹ جائے ہم دور کھڑے انتظار کر رہے تھے کہ کب دھماکہ کی آواز آئے گی اور ٹرین الٹ جائے گی۔

ایسے میں ٹرین آئی سرنگ کے اندر جانے سے پہلے دھماکہ کی بجائے بریک کی آواز آئی اور پھر خاموشی چھا گئی ہم نے ایک لڑکا بھیجا کہ دیکھ کر آؤ کیا ہوا لڑکے نے آ کر بتایا کہ ٹرین پتھروں سے ٹکرانے کی بجائے ڈیڑھ فٹ پہلے کھڑی ہو گئی تھی واقعہ کے دو تین دن بعد پولیس آ گئی انکوائری ہوئی قاضی صاحب نے لڑکوں کو گرفتار نہیں ہونے دیا انہوں نے موقف اختیار کیا کہ تمام سٹوڈنٹ وارڈ آف اسٹیٹ میں ہیں اس لئے انہیں گرفتار نہیں کیا جا سکتا البتہ تین چار لڑکوں کو ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا پیشی شملہ میں ہوئی قاضی صاحب نے عدالت میں کہا کہ اکثر بچے یتیم ہیں وہ ایسا کام نہیں کر سکتے مجسٹریٹ نے ایک نصیحت آمیز لیکچر دیا اور کیس ختم کر کے لڑکوں کو جانے دیا یہ ہماری پہلی گوریلا کارروائی تھی معلوم نہیں کہ آئندہ اس کی نوبت آئے گی کہ نہیں۔

ایک مرتبہ انڈین ہائی کمشنر کوئٹہ آیا تو میں نے کہا کہ اس مقدمہ کا ریکارڈ تلاش کر کے دیدے کہ ہم پرچارجز کیا تھے اس نے کہا کہ یہ بہت مشکل کام ہے کیونکہ شملہ اس وقت پنجاب میں شامل تھا اور اب یہ ہماچل پردیش میں شامل ہے اس طرح ہندوستان کی آزادی کیلئے ہماری جو معصومانہ خدمات تھیں ان کا ریکارڈ دستیاب نہ ہو سکا اس لئے اب ہم یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہمارا بھی کچھ حصہ تھا۔

1947ء کا ریفرنڈم اور پاکستان کے حق میں ووٹ
یہ ایک محدود ریفرنڈم تھا شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپلٹی کے ممبران ووٹ دینے کے اہل تھے سب نے بھاری اکثریت کے ساتھ پاکستان کے حق میں ووٹ دیا۔

چونکہ ریفرنڈم میں یہ پوچھا گیا تھا کہ آپ پاکستان میں شامل ہونا چاہتے ہیں یا ہندوستان میں اس کے علاوہ اور کوئی چوائس نہیں تھی اس لئے اکثریت نے پاکستان میں شمولیت کے حق میں ووٹ دیا اگر آزادی یاریاست قلات میں شمولیت کے بارے میں پوچھا جاتا تو پھر دوسری بات تھی اس ریفرنڈم میں جو صرف برٹش بلوچستان کے بارے میں تھا صرف تین ووٹ پاکستان کے خلاف پڑے خان عبدالصمد خان اچکزئی جو بلوچی گاندھی کہلاتے تھے اور کانگریس کے رہنماء تھے ان کی کوششوں سے تین ممبران نے پاکستان کے حق میں ووٹ نہیں دیا۔

سیاست میں پہلا قدم
1947ء کے ریفرنڈم میں پاکستان کے حق میں ووٹ دینے کے عمل کو ہمارا سیاست میں پہلا قدم کہا جا سکتا ہے لیکن بعد میں بلوچوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا ریاست قلات پر جس طرح فوج کشی کی گئی اس سے یہ سوال ضرور ذہن میں اٹھا کہ ہماری اور ان کی روایات میں فرق ہے وہ احسان کا بدلہ اس طرح دیتے ہیں اگر ہمیں معلوم ہوتا کہ ہمیں غلام بنا کر رکھا جائیگا تو شائد فیصلہ مختلف ہوتا۔

کوئٹہ میں فسادات
ہندوستان کی تقسیم کے بعد مشرقی پنجاب میں مسلمانوں پر جو حملے ہوئے ان کا رد عمل کوئٹہ میں بھی ہوا ہندوؤں اور سکھوں کی املاک پر حملے شروع ہو گئے انگریزوں نے شہر میں کرفیو نافذ کر دیا ہندو محلوں کے اردگرد خارددار تاریں لگائیں ہر جگہ فوج نے ٹیک اوور کیا ریس کورس میدان ایوکیو کیمپ میں تبدیل ہو گیا۔

اندرون بلوچستان پشین‘ چمن اور لورالائی میں ہندوؤں کی جان ومال پر حملے کئے گئے دکانوں کو جلا دیا گیا نوجوان لڑکیوں کے اغواء کے واقعات بھی ہوئے اس کے برعکس بلوچ علاقوں میں اس طرح کا کوئی واقعہ نہیں ہوا کیونکہ بلوچوں کی روایت ہے کہ وہ اپنے ہمسایہ کو نہ مارتا ہے اور نہ لوٹتا ہے چاہے یہ اقلیت ہی کیوں نہ ہو بلکہ بلوچ کوڈ میں اقلیت کا زیادہ خیال رکھا جاتا ہے۔

سروسز اکیڈمی میں داخلہ
1948ء میں لاہور چلا گیا جہاں سی ایس پی اکیڈمی میں داخلہ لیا یہ پاکستان کا پہلا گروپ تھا اس زمانے میں سی ایس پی آئی سی ایس کے مساوی تھا میں پہلے بیج میں شامل تھا یہ کورس 8ماہ میں ختم ہو گیا دوسرا کورس ڈھاکہ میں ہونا تھا لیکن میں وہاں نہیں گیا کیونکہ میں سول سروس میں آنا نہیں چاہتا تھا میرا مقصد صرف تربیت حاصل کرنا تھا 1950ء میں بلوچستان میں ایڈوائزری کونسل بنائی گئی اے جی جی اس کونسل کے سربراہ تھے مجھے اس میں شامل کیا گیا درجہ وزیر جیسا تھا میرے علاوہ قاضی عیسیٰ اور سردار نور محمد گولہ رکن تھے مجھے ایجوکیشن ہیلتھ اور اطلاعات کے محکمے دیئے گئے ایک سال تک کونسل میں رہا۔

قیام پاکستان سے قبل وائسرئے کی کونسل میں بلوچستان ایک سیٹ تھی اس پر متفقہ طور پر نواب محمد جوگیزئی کو منتخب کر کے بھیجا گیا تھا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔