نواب اکبر خان بگٹی؛ مزاحمت کا ایک استعارہ
فتح بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
نواب اکبر خان بگٹی ہمیشہ سے ہی بلوچ سیاست اور بلوچ قوم پرستی کے جز لاینفک رہے ہیں لیکن انکے اہم سیاسی کردار کا آغاز اس وقت ہوا، جب انہوں نے ریاست پاکستان کے فوجی سربراہ پرویز مشرف کو للکار کر باضابطہ مزاحمت کا آغاز کردیا۔
2005 میں جب ریاست پاکستان نے ساحلِ بلوچستان پر ترقیاتی ( استحصالی) منصوبوں کا اعلان کیا، تو یہ استحصالی منصوبے بلوچ قوم پرست جماعتوں کے لیے قابل قبول نہیں تھے۔ ماضی میں فیڈریشن کی سیاست کرنے والے نواب اکبر خان بگٹی نے بھی پاکستان کے ان نام نہاد ترقیاتی (استحصالی) منصوبوں کو مسترد کرتے ہوئے ساحل اور وسائل کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہوئے اور مزاحمت کا اعلان کردیا۔
2005 تا 2006 کے دوران انہوں نے کئی بار مرکزی (پاکستانی) حکومت کے نمائندوں سے مذاکرات کئے جو ناکام رہے۔
اس دوران پاکستانی حکومت اور فوجی اسٹیبلشمنٹ اکبر بگٹی پر طرح طرح کے الزامات لگاتے رہے۔ ایک انٹرویو کے دوران کسی صحافی نے نواب بگٹی سے سوال کیا کہ ریاست کہتا ہے کہ آپ کے نجی جیل خانے ہیں؟ تو اکبر بگٹی نے ان الزامات کو مزاحقہ خیز قرار دیکر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ سارا ملک جیل خانہ ہے، وہ اور بات ہے کہ کسی کا چھوٹا تو کسی کا بڑا ضیاء الحق کے وقتوں میں تو (Publicly) کوڑے لگائے جاتے تھے، آپ نے بھی دیکھا اور ہم نے بھی دیکھا۔ شاید سرعام پھانسی بھی دیا کرتے تھے کبھی کبھار لوگوں کو، ہم نے تو کبھی کسی کو پھانسی نہیں دی۔ کیونکہ بلوچی رسم و رواج میں پھانسی کی سزا نہیں ہے۔
ایک جگہ نواب صاحب صحافی کے سوال کے جواب میں فرماتے ہیں، اگر تصادم ہوا تو خون خرابہ ہوگا اور یقینی طور سے ہوگا، تصادم میں تو خون خرابہ ہی ہوتا ہے اور تو کچھ نہیں ہوتا، دیکھیں جی ہمارے لوگ غریب ہیں، مسکین ہیں، نہتے ہیں جبکہ دوسری طرف ایک منظم قوت ہے، جن کے پاس ہر ایک چیز ہے، مگر یہ بھی طے ہے کہ اگر وہ مار سکتے ہیں تو ہم بھی مر سکتے ہیں اور مرتے مرتے ہم بھی دو چار کو تو ساتھ لے جائیں گے۔
بعد ازاں انہوں نے روایتی بلوچ مزاحمت کا طریقہ اپنایا اور پہاڑوں پر چلے گئے۔ پاکستان کے فوجی حکمرانوں نے ہمیشہ بلوچستان کو طاقت کے ذریعے فتح کرنے کا راستہ اپنایا، پاکستان اکبر بگٹی کو طاقت کے ذریعے اپنے آگے جھکانا چاہتا تھا، لیکن انکا یہ خواب پورا نہیں ہوا۔
26 اگست کو اکبر بگٹی اور انکے ساتھی پاکستان کے طاقت ور فوج کا مقابلہ کرتے ہوئے پاکستان کا غرور خاک میں ملا کر جام شہادت نوش کرگئے اور یوں بلوچستان میں مسلح مزاحمت کی جڑیں مضبوط تر ہوگئے۔
شاید پاکستان اکبر بگٹی کو مارنے کے بعد بلوچستان کو بآسانی فتح کرنے کا خواب رکھتا تھا، لیکن اکبر بگٹی کے بعد بلوچستان کی سرزمین پاکستان کے لیے مزید تنگ ہوچکی ہے۔ بلوچ پاکستان کے مقابلے میں پرامن سیاسی جدوجہد کو اب وقت کا ضیاع سمجھتے ہیں۔ پرامن سیاسی جدوجہد وقت کا ضیاع اور قابض کے لیے آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ اس کا تجربہ بلوچ نے بہت اچھی طرح اور بھاری نقصان کے صورت میں کرلیا ہے۔ آج کے بلوچستان میں مسلح جدوجہد کی راہیں زیادہ ہموار ہیں اور مد مقابل دشمن کے لیے زیادہ تکلیف دہ بھی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔