عاصم سلیم باجوہ کے خاندان کے مبینہ اثاثوں پر رپورٹ

1040

باجوہ دو سالوں تک کمانڈر سدرن کمانڈ (بلوچستان) رہ چکے ہیں۔

عاصم سلیم باجوہ اور ان کے خاندان کے تیزی سے بڑھتے کاروبار پر سوال اٹھاتے ہوئے ایک تحقیقاتی رپورٹ ’فیکٹ فوکس‘ نامی ویب سائٹ پر شائع ہوئی ہے۔

پہلے امریکہ اور پھر پاکستان میں باجوہ خاندان کی کاروباری سلطنت کا پھیلاو اور جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی فوج میں اہم عہدوں پر ترقی، دونوں چیزیں ساتھ ساتھ چلیں، فیکٹ فوکس کی چار مختلف حکومتوں کی سرکاری دستاویزات پر مبنی رپورٹ میں دعویٰ

جنرل (ر) عاصم باجوہ آج کل چین کے تعاون سے چلنے والے بہت بڑےانفراسٹرکچر کے منصوبے چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے چیئرمین اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کے معاون خصوصی ہیں۔

فیکٹ فوکس کے رپورٹ کے مطابق “عاصم باجوہ کے بھائی نے امریکہ کی معروف فوڈ چین پاپا جونز کے پہلے ریسٹورنٹ سن دو ہزار دو میں قائم کیے۔ اسی سال جنرل (ر) عاصم باجوہ کی جنرل پرویز مشرف کے اسٹاف آفیسر کے طور پر تعیناتی ہوئی۔

ندیم باجوہ، جنہوں نے اپنے کاروباری سفر کا آغاز پاپا جونز پیزا ریسٹورنٹ میں بطور ڈیلیوری ڈرائیور کیا تھا، اب ان کے بھائیوں اور عاصم باجوہ کی اہلیہ اور بچوں کی چار ممالک میں نناوے کمپنیاں اور ایک سو تینتیس فعال فرینچائز ریسٹورنٹس، جن کی موجودہ مالی حیثیت تقریبا چالیس ملین ڈالر (چھ سو ستر کروڑ پاکستانی روپے)، ہیں۔

ایسے وقت میں جب عاصم باجوہ اور ان کا ڈیپارٹمنٹ لوگوں کو معاشی بھنور میں پھنسے پاکستان میں کاروبار کرنے کی ترغیب دے رہا تھا، ان کی بیوی اور بھائیوں نے باون اعشاریہ دو ملین ڈالر (آٹھ سو چھتر کروڑ) سے زائد کی سرمایہ کاری سے دو انٹرنیشنل فوڈ چینز کے تین ممالک میں ایک سو چوہتر فرینچائز ریسٹورنٹ قائم کیے اور امریکہ میں چودہ اعشاریہ پانچ ملین ڈالر (دو سو ترتالیس کروڑ) کی کمرشل اور رہائشی جائیدادیں بنائیں۔ یوں ایک ہزار ایک سو انیس کروڑ کی سرمایہ کاری پاکستان سے باہر کی گئی۔ اس وقت ایک سو تینتیس فرینچائزز فعال ہیں۔

جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کی اہلیہ اور ان کے بیٹوں نے پاکستان اور امریکہ میں ان کاروباروں میں شمولیت اختیار کی، اہلیہ کی امریکہ کینیڈا اور متحدہ عرب امارات میں چلنے والے کاروباروں اور ان بزنسز کی پراپرٹیز میں برابر کی ملکیت ہے۔ لیکن عاصم سلیم باجوہ نے وزیراعظم پاکستان کے معاون خصوصی بننے کے بعد جمع کروائی گئی اپنے اثاثہ جات کی فہرست میں اپنی بیوی کے پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل کا ذکر نہیں کیا۔ بلکہ متعلقہ کالم میں باقاعدہ “نہیں ہے” لکھا۔

خاندان کا پس منظر :

باجوہ خاندان چھ بھائیوں اور تین بہنوں پر مشتمل ہے جن کا تعلق جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سے شہر کے خوشحال مگر مڈل کلاس گھرانے سے تھا۔

ان کے والد محمد سلیم باجوہ پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے اور انھوں نے انیس سو پچاس (1950) کے اوائل میں سرکاری نوکری شروع کی اور پھر انیس سو ساٹھ (1960) میں صادق آباد میں قائم ملت ہسپتال نامی ایک نجی ہسپتال میں شمولیت اختیار کر لی۔ انہیں پچیس نومبر انیس سو چھتر کو کراچی ایکسپریس پر سفر کے دوران نامعلوم افراد نے قتل کر دیاتھا۔

وفات کے وقت سلیم باجوہ کے اثاثہ جات میں زرعی زمین، صادق آباد شہر میں کچھ دوکانیں، ایک دواساز کمپنی میں شیئرز اور ایک گھر تھا۔

سلیم باجوہ کے بڑے دو بیٹے تنویر اور طالوت والد کی طرح ڈاکٹر بن گئے اور پنجاب کے مختلف شہروں میں پریکٹس کی۔ تیسرے بیٹے عاصم باجوہ نے انیس سو چوراسی میں فوج میں شمولیت اختیار کر لی۔ دو بھائی ندیم اور فیصل پنجاب یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کر کے انیس سو نوے کی دہائی کے اوائل میں امریکہ چلے گئے۔
سب سے چھوٹا بھائی عبدالمالک بھی دو ہزار دو (2002) میں امریکہ چلا گیا۔

مختلف ممالک کے کاروبار کا نظام چلانے کیلیے بننے والی پیرنٹ کمپنی

دو ہزار سات میں جب اس وقت کے ملٹری ڈکٹییٹر جنرل(ر) پرویز مشرف نے عاصم باجوہ کو برگیڈئیر کے عہدہ پر ترقی دی تو باجوہ فیملی کے تمام کاروباروں کو ‘باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل ایل سی‘ نامی ایک کمپنی کے زیرِ سایہ لایا گیا اور اس کمپنی کو امریکی ریاست اوہایو میں رجسٹر کروایا گیا جبکہ دو ہزار آٹھ میں لاہور میں اس کمپنی کا مددگار دفتر قائم کیا گیا۔

باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل ایل سی کی رجسٹریشن دستاویزات، جو کہ امریکی ریاست اوہایو کے سیکریٹری آف سٹیٹ کے ریکارڈ کا حصہ ہیں، سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جنرل (ر) عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا باجکو گروپ کے تمام کاروباروں میں اپنے شوہر کے پانچ بھائیوں کے ساتھ برابر کی حصہ دار اور مالک ہیں۔

جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیٹوں نے باجکو گروپ میں دو ہزار پندرہ (2015) میں شمولیت اختیار کی اور پاکستان اور امریکہ میں باجکو گروپ کےعلاوہ مزید نئی کمپنیوں کی بنیاد اس وقت رکھی جب جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ بلوچستان تھے۔

عاصم باجوہ نے وزیر اعظم کا معاون خصوصی بننے کے بعد بائیس جون کو اپنے اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن پر حلفیہ دستخط کیے جس میں انہوں نے اپنی بیوی کے نام پر صرف ایک اثاثہ اکتیس لاکھ روپے کی انوسٹمنٹ ظاہر کیا۔ جس کالم میں عاصم باجوہ سے انکی یا انکی اہلیہ کی بیرونِ ملک جائیداد کے بارے میں پوچھا گیا، عاصم باجوہ نے جواب لکھا کہ “نہیں ہے”۔ ایک دوسرے کالم میں جہاں عاصم باجوہ سے واضح انداز میں انکے یا انکی اہلیہ کے پاکستان سے باہر کاروباری سرمایہ کے بارے میں پوچھا گیا، اس کا جواب بھی عاصم نے حلفیہ طور پر “نہیں ہے” دیا۔ اثاثہ جات کی اس ڈیکلیریشن کے آغاز میں اپنے اور اپنی بیوی کی اثاثہ جات بتانے کا کہا گیا تھا۔ اس ڈیکلیریشن کے اختتام پر ایک مرتبہ پھر عاصم باجوہ سے تصدیق چاہی گئی تو انہوں نے ان الفاظ میں تصدیق کی :

“میں لیفٹینٹ جنرل ریٹائرڈ عاصم سلیم باجوہ ولد محمد سلیم باجوہ، حلفیہ اقرار اور تصدیق کرتا ہوں کہ میرے علم اور مکمل یقین کے مطابق اوپر دی گئی میری، میری بیوی کی اثاثہ جات کی فہرست نہ صرف مکمل اور درست ہے بلکہ میں نے کوئی چیز نہیں چھپائی۔”

تاہم فیکٹ فوکس نے امریکی حکومت کی جو سرکاری دستاویزات حاصل کیں ان کے مطابق عاصم باجوہ کی اہلیہ فرخ زیبا پاکستان سے باہر (امریکہ میں) تیرہ کمرشل جائیدادیں جن میں دو شاپنگ سنٹر بھی شامل ہیں کی مشترکہ مالک ہیں اور امریکہ، کینیڈا اور متحدہ عرب امارات میں بیاسی کمپنیوں (پاکستان سے باہر بزنس کیپیٹل) جن کے سرمایہ کی موجودہ کل مالیت تقریباً چالیس ملین ڈالر (چھ سو ستر کروڑ) ہے، کی عاصم باجوہ کے بھائیوں کے ساتھ برابر کی مالکن ہیں۔

جب فیکٹ فوکس نے عاصم باجوہ سے ان کی بیوی کے نام یا انکی بیوی کی مشترکہ ملکیتی کمپنیوں کے امریکہ میں بنک اکائونٹس اور ان میں موجود رقم کے حوالے سے متعلق سوال کیا اور پوچھا کہ انہوں اپنے اثاثہ جات کی ڈیکلیریشن میں اپنی بیوی کے حوالے سے واضح طور یہ کیوں لکھا کہ انکا پاکستان سے باہر کوئی کاروباری سرمایہ نہیں ہے تو جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ نے جواب دینے سے گریز کیا۔

فیکٹ فوکس کی تحقیقات کے دوران سب سے اہم پیش رفت یہ ہوئی کی سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن کے ادارے جو کہ پاکستان میں کاروباری کمپنیوں کے نظام کو ریگولیٹ کرتا ہے نے اپنی آفیشل ویب سائٹس سے جنرل(ر) عاصم سلیم باجوہ کے بیٹوں کی ملکیتی کمپنیوں کا ڈیٹا غائب کرنا شروع کر دیا۔ فیکٹ فوکس کے پاس سیکورٹی اینڈ ایکسچینج کمییشن کی جانب سے اس کاروباری ڈیٹا میں کی جانے والی تبدیلیوں کے مکمل شواہد موجود ہیں۔

احمد نورانی اپنی رپورٹ میں دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے اس تحقیقیاتی رپورٹ کے دوران عاصم باجوہ سے کئی مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی تاکہ وہ انہیں ان کمپنیوں کے فنانشنل ریکارڈ فراہم کریں لیکن انہوں نے احمد نوارنی کو کوئی جواب نہ دیا۔ احمد نوارنی یہ بھی کہتے ہیں عاصم باجوہ جب بلوچستان کی جنوبی کمانڈ کے سربراہ تھے اس دور میں ان کے خاندان نے امریکا میں دس ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کی۔ احمد نوارانی نے اس رپورٹ میں یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ سب شروع کیسے ہوا؟ کمپنیاں کھولنے اور سرمایہ کاری کرنے کے لیے اتنا پیسہ آیا کہاں سے اور تین ہفتے تک رابطہ کرنے کی کوششوں کے باوجود عاصم باجوہ خاموش کیوں رہے۔