شہید حیات کے نام – عدیل حیات بلوچ 

842

شہید حیات کے نام

عدیل حیات بلوچ 

دی بلوچستان پوسٹ

چلو چلتے ہیں۔۔۔
دوست نے کہا
کہاں؟
“پہاڑی پر”دوست خوشی سے بولا
نہیں! پہاڑی پر کیا کرنا ہے، شہر میں رہتے ہیں۔۔۔
شہر میں کیا کرو گے؟
دوست اداس لہجے میں بولا
بھائی کہاں جی رہے ہو، آج آزادی کا دن ہے، چلتے ہیں شہر، آزادی منانے۔۔۔۔
کونسی آزادی؟
میں نے استفسار کیا۔۔۔
وہی آزادی جس کے لئے ہمارے آبا و اجداد نے قربانی دی تھی۔۔۔۔
تمہارے آبا و اجداد نے دی ہوگی میرے نہیں تم جاؤ ۔۔۔
اب چلو بھی یار۔۔۔۔
تربت میں ایک اسٹوڈنٹس حیات بلوچ شہید ہوا ہے پتہ ہے تمہیں؟
ہاں۔۔۔
کس نے مارا، یہ پتہ ہے؟
نہیں تم بتاؤ ۔۔۔
ہمارے محافظوں نے، جن کی خاطر تم آزادی منانے جارہے ہو۔۔۔
ہاہاہاہاہا محافظ بھلا کسی شہری کا قتل کریں ایسا ہوسکتا ہے؟
ہاں بلوچستان میں ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔
وہ دہشتگرد ہوگا۔۔۔
اسٹوڈنٹ دہشتگرد ہی ہوتے ہیں ہمارے ہاں۔۔۔۔
کیوں؟
ہمارے محافظ کسی بلوچ کو پڑھنے نہیں دیتے اگر کوئی پڑھے تو اسے مار دیتے ہیں۔۔۔۔
ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟
ایسا ہی ہوتا ہے یہاں۔۔۔۔
لیکن ہوا کیا ہے؟
حیات بلوچ جو کراچی یونیورسٹی کا طالب عمل تھا اسے اس کے ماں باپ کے سامنے ٨ گولیاں ماری گئیں اور کہا گیا کہ غلطی سے ہوا ہے۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہوسکتا ۔۔۔۔
جی جناب آپ کے ہاں ایسا نہیں ہوتا ہوگا، ہمارے نصیب میں یہی ہے، کیا کسی کو بھی گھسیٹ کے لات مار کر روڈ پہ لایا جائے اور ٨ گولیاں ماری جائیں یہ غلطی ہوسکتی ہے؟
نہیں لیکن۔۔۔
لیکن کو چھوڑو آپ آزادی مناؤ، ہم لاشیں اٹھائیں گے رضا جہانگیر کے ساتھ بھی یہی ہوا تھا۔۔۔۔
لیکن تمہیں کیا ہے؟ تم بھی لاپتہ کردیے جاؤ گے مارے جاؤ گے چھوڑو یہ سب۔۔۔۔
اگر آپ بلوچ ہو تو یہی ہے آپ کے نصیب میں مارے جاؤ یا لاپتہ ہوجاؤ ۔۔۔
حیات بلوچ نے کیا کچھ کیا تھا؟
مجھے نہیں پتہ۔۔۔۔
کچھ بھی نہیں کیا تھا بس طالب علم تھا اور جرم بلوچ ہونا تھا تو مارا گیا، یہاں مرنے یا لاپتہ ہونے سے آپ کو کوئی نہیں بچا پائے گا جتنا چاہے احتیاط کرو۔۔۔
تو لاپتہ ہونے یا مارے جانے سے بچنے کے کیا کچھ امکانات ہیں؟
ہاں۔۔۔
کیا؟
بلوچ نہ ہونا، تعلیم حاصل نہ کرنا اور آزادی مناتے جانا۔۔۔
تو آپ بلوچ ہونے سے انکار کردو نا، کہیں اور چلے جاؤ یہاں سے۔۔۔۔
کیا تم اپنی ماں کو چھوڑ کے جاسکتے ہو؟
نہیں۔۔۔
تو میں کیسے اپنی سرزمین کو چھوڑ کے جاؤں؟ زمیں کیا ماں سے کم ہے؟
اور زندہ رہنے کے لئے اپنی شناخت تک بھول جاؤں، بلوچ ہونے سے ہی انکار کردوں، تو مر نہ جاؤں۔۔۔
تو اس کا حل کیا ہے؟
حل ہے ایک۔۔۔۔
کیا؟
تم آزادی مناؤ، ہم لاشیں اٹھائیں گے، دیکھتے ہیں پہلے کون ہار مانتا ہے۔۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔