دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچ مائتھالوجی اور ہنگلاج ماتا مندر – (بلوچ آزمانک)
پاروتی پری کے بت کے ساتھ بیٹھے پنڈت کے ساتھ ہی ایک بڑا سا چوکور ڈبہ رکھا ہے۔ اس پر نیچے ہندی میں کچھ لکھا ہے۔ اور اُس سے اوپر کی لائن پہ اردو میں یوں لکھا ہے: ”پیسے پیٹی میں ڈالیں“۔ واضح رہے کہ اُس وقت تک ہم نے عامر خان کی مشہورفلم ”پی کے“ نہیں دیکھی تھی۔ (عامر خان نے ہنگول بھی تو نہیں دیکھا!)۔
میں نے 500 روپے کا نوٹ اُس کے ڈبے میں کسی پیارے کا نام لے کر ڈال دیا۔ دربار کے ملنگ نے جواباً مجھے ایک ناریل دے دیا۔ یہاں زائرین بالخصوص، دیالُو اور سخی (کم زور عقیدے والے) زائرین کو ایک ”الوداعی“ ناریل دیا جاتا ہے۔ یہ ناریل، میں اُسی پیارے وجود کے لیے لے گیا، جس کے لیے منت مانگی تھی اورجس کے لیے خود کو سرنگ آلود کیا تھا۔
یہاں سیمنٹ کی خوب صورت پگڈنڈیاں ہیں، پُل ہیں، ریکنگ ہیں۔ سبزہ ہے، جن میں گزکی قدرتی جھاڑیاں بھی ہیں اور انسانی لگائے گئے درخت و پودے بھی۔ البتہ برگد کا درخت مجھے یہاں کہیں بھی نظر نہ آیا۔ اس بڑے اساطیری مقام کے ساتھ بہتے نالے کا ذکر ہم پہلے ہی کر چکے ہیں۔
نانی مندر کی غار کے عین سامنے نیچے ندی کے کنارے ذرا سی جگہ کو جو بہ مشکل ایک بڑے کمرے کے برابر ہوگی، پارک جیسا بنا دیا گیا۔ پتلے آہنی ڈنڈے وہاں لگے تھے جن کے سروں پر بجلی کے خوب صورت بلب اور جھنڈے تھے اور اُن کی بنیادوں پر پودے اور پھولوں والے بیل بوٹے لپٹے تھے۔ اس پارک نما جگہ پر ترشول گاڑے ہوئے ہیں (ترشول شیو کا ہتھیار ہوا کرتا تھا)۔ اس پارک نما جگہ پر سفید بیل کا خوب صورت مجسمہ ہے، جس پر سرخ کپڑا کوہان سے آگے گردن پہ اور کوہان کے پیچھے پیٹھ پر آرائشی انداز میں لپٹا ہوا ہے۔
وہیں پر سیمنٹ سے بنا شیولنگ زمین میں پیوست تھا، جسے ناگ جیسا ڈھانچہ گویا سایہ کیے ہوئے تھا۔ سجادہ نشین نے اس کی تشریح اِس طرح گھما پھرا کرکی جس طرح کہ پادری ”اگر مگر، چوں کہ چنانچہ“ کرتا رہتا ہے۔ آپ جب بھی ہزاروں برس پرانی بات کا تذکرہ کرتے ہوئے اُسے آج کے اخلاقی معیار کے ساتھ ہم آہنگ کرنا چاہیں گے، تو آپ پھنس جائیں گے۔ اگر آپ مائتھالوجی کو سائنسی پیمانہ دینے کی کوشش کریں گے تو آپ اپنی دانش کی بڑھوتری روک دیں گے۔ چنانچہ پنڈت پھنس چکا تھا۔ اُس نے سیدھے سادے شِو، لِنگ کے ساتھ فلسفہ جوڑ دیا اور ہمیں سمجھاتے سمجھاتے وہ اور فلسفہ دونوں، ہلکان ہوچکے تھے۔ ہم نے اپنے سابقہ علم ہی کو غنیمت جانا جس میں شیولنگ بس شیولنگ ہوتا ہے۔ بھئی مائتھالوجی آپ کی میری فیوڈل اخلاقیات نہیں مانتی۔ پانچ ہزار سال پہلے اخلاقی طور پر جو کچھ جائز ناجائز تھا، وہ آج پتہ نہیں کہاں تک applicableہے۔
یہ بلوچ میتھالوجیکل سائٹ پورے ہندوستان میں مقدس ہے، بالخصوص کلدیوی، کھشتر یہ اور دیگر گروہوں میں۔ یوں یہ ہندوستان، پاکستان اور دنیا کے دیگر لوگوں اور بلوچستان کے بلوچوں (بالخصوص ہندو) بلوچوں کی ایک مشترک زیارت گاہ ہے۔ یہاں اپریل میں چار روزہ زبردست میلہ ہوتا ہے۔ انڈیا، نیپال اور دنیا بھر سے زائرین آتے ہیں۔ بلوچ اس میلے میں جوش و خروش سے شامل ہوتے ہیں۔ وہ غیر ملکی زائرین کا خیال رکھتے ہیں۔
ہندوستان کا بادشاہ سمراٹھ وکرم جیت سارا ہندوستان فتح کرنے کے بعد یہاں شکر گزاری کے لیے حاضر ہوا تھا۔ مغل بادشاہت کا راجہ ٹوڈر مل بھی یہاں زیارت کے لیے آیا تھا۔ شاہ لطیف سے لے کر ہندوستان کے طاقت ور وزیر خارجہ جسونت سنگھ (جنوری2006ء) تک صدیوں سے لوگ زیارت کرنے یہاں آتے ہیں۔
جسونت سنگھ کیا چیز ہے بھئی، یہاں عبادت کے لیے تو خود رام بھی آیا تھا۔ رام کو جانتے ہو ناں؟۔ وہ مشہور داستان، رامائنڑ کا ہیرو ہے۔ رام کا مطلب ”خوشی“ یا ”خوش کرنے والا“ ہے۔ اُس کا شمار بھی زندہ لوگوں میں ہوتا ہے۔ اس دیوتا کے نام کو پوشیدہ طور پر لازوال طاقت کے متعلق تصور سے وابستہ کیا گیا ہے۔ اسی سے رام رام، ”خوشی“ یا ”تم خوش رہو“ اخذ کیا گیا ہے۔ اس نے ہنومان (بندر دیوتا) کے ہم راہ بہت سی مہمات کیں۔
”ہنو“ سنسکرت کا لفظ ہے، جس کا مطلب ”رخسار کی ہڈی“ ہے۔ آپ جانتے ہوں گے کہ سورج کے مدار سے گزرنے کے بعد، بندر کے رخسار کی ہڈی ٹوٹ گئی، اسی وجہ سے اسے ہنو مان یا بندر دیوتا کہا جانے لگا۔ وہ غیر فانی ہے اور انسانوں کو لمبی زندگی عطا کرتا ہے۔ جنم دنوں پر اس کی پوجا کی جاتی ہے۔
مارکس نے ہندوستان میں انسانیت کی اس بے عزتی کا زبردست نوٹس لیا۔ جہاں انسان جو کہ پوری فطرت کا مالک ہے ‘ہنو مان بندر، اور سبالا گائے کی عبادت میں اپنے گھٹنوں کے بل گر گیا۔ ہم بھی بلوچ مائتھالوجی کو کسی منظم مذہب کا رخ دینے کے سخت خلاف ہیں۔ یہ جگہیں عبادت خانے نہیں ہیں۔ یہ تو ہماری تہذیب، ہماری تخلیقی تاریخ اور ادب آرٹ کا ورثہ ہیں۔ ہم دیانت داری سے دانش وروں کو خبردار کرتے ہیں کہ وہ بے شک اپنے مستقبل یعنی گوادر کی حفاظت کریں، مگر اُن کا ماضی، اُن کا کلاسیک اور اُن کی مائتھالوجی کو بھی زبردست خطرات لاحق ہیں۔ لوگ ہمارے ہنگلاج کو، ہمارے بلوچستان کو، مذہب بناچکے ہیں، اور پھر اُسے سیاست میں بی جے پی کے ذریعے استعمال کرکے سیاسی اقتدار حاصل کرچکے ہیں۔ یعنی ہمارے ثقافتی فرش کو اکھیڑ اکھیڑ چکے ہیں۔ مگر شکر ہے وہ چاند کو گُل نہ کر پائے، اِن سائٹس کو اِن پہاڑوں کو اکھاڑ کر نہ لے جا پائے۔ اے نوجوانو! اُن کہانیوں داستانوں کو کبھی فراموش نہ ہونے دو جس پر آج بلوچ سماج کا پورا ڈھانچہ کھڑا ہے۔ کسی قوم کی مائتھالوجی چھین لو تو سمجھو اُسے گھنٹوں کے بل جھکا دیا۔
انسان کہا نیوں کے ذریعے ابلاغ کرتا ہے۔ مائتھالوجی انسان کو شناخت دیتی ہے اور انہیں تعلقات میں مربوط کرتی ہے۔ مائتھالوجی (آزمانک) میری، آپ کی موضوعی سچائی ہوتی ہے۔ ظاہر ہے ہر کلچر سچ کو اپنے اپنے انداز میں دیکھتا اور سمجھتا ہے۔ آپ اُن کہانیوں کے ذریعے آزمانکوں کی دنیا میں داخل ہوتے ہیں جو عوام الناس کی ملکیت ہیں۔ اور اُن کہانیوں کے ذریعے آپ ایک سچ تلاش کرتے ہیں۔ یہ ہے مائتھالوجی۔
مائتھالوجی ماضی نہیں ہوتی۔ بلوچ مائتھالوجی میں بے شمار دیو اور پریاں موجود ہیں۔ اِن میں ولن بھی ہیں، فرشتے بھی، شیطان بھی اور بہت خیر والے بھی۔ شرارتی، مزاحیہ۔ بدی اور اچھائی کی طاقتوں سے بھرے ہوئے۔
بہر حال، رام نے جب راونڑ کو قتل کردیا تو اپنا یہ گناہ بخشوانے اور کفارہ کرنے وہ ہنگلاج آیا تھا۔ بھئی حیران مت ہوجاؤ۔ مجھے پتہ ہے رام اچھا شریف آدمی تھا جب کہ راونڑ بدکار اور بدمعاش تھا۔ رام نے اُسے قتل کرکے بہت نیکی کا کام کیا تھا۔ مگر، اب وہ بلوچستان میں آکر، ہنگلاج میں بیٹھ کر اُس پہ معافیاں مانگ رہا تھا۔ بات یہ ہے جی کہ راونڑ، براہمنڑ ذات کا تھا!۔ اور براہمنڑ تو ہمارے سیدوں کی طرح اونچی اور پاک ذات ہوتے ہیں۔ انہیں قتل کرنا بہر حال گناہ ہوتا ہے، خواہ مقتول راونڑ جتنا بدکردار کیوں نہ ہو، اور قاتل، رام جیسا پاک اور باغیرت ہی کیوں نہ ہو۔ اس لیے رام نے یہاں آکر کفارہ ادا کیا۔
رام صرف سید زادے کے قتل پہ ہی یہاں گڑگڑا کر معافی مانگنے نہیں آیا تھا بلکہ اس لیے بھی وہ یہاں آیا تھا کہ راونڑ، شیو اور ستی کا بہت بڑا ماننے والا تھا۔ جس طرح دنیا بھر میں ظالموں، جابروں، قہاروں، بدمعاشوں اور ڈاکوؤں کے پیر مرشد ہوتے ہیں۔ اور وہ وہاں خیراتیں چڑھاوے منتیں کرتے ہیں۔ اسی طرح راونڑ بھی شیو کا پکا مرید تھا۔ چنانچہ رام کے لیے شیو کو منانا ضروری ہوگیا تھا، کہ اُس کا مریدِ خاص قتل کر ڈالا تھا رام جی نے۔
الغرض، بلوچستان اگر ایک طرف شیو اور درگا دیوی کا استھان ہے تو دوسری طرف شری رام اور شاہ لطیف کی عبادت گاہ بھی ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔