سورج کا شہر (حصہ دوئم) | قسط 36 – ڈاکٹر شاہ محمد مری

320

دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ

سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچ مائتھالوجی اور ہنگلاج ماتا مندر – (بلوچ آزمانک)

نانی مندر جاتے ہی مرید اور سادھو ہاتھ جوڑ کرآپ کا سواگت ”ماتا جی کی جے“ کہہ کر کریں گے۔ عاجز، منکسر، ملائم، اور خوش گفتار مرید۔ مست توکلی کے مزار کے رکھوالے کو ’مستہ ملنگ“ کہتے ہیں۔ ہنگلاج والے کو کیا کہوں؟۔ فقیر، مرید، ملنگ، یا کچھ اور؟۔ مجھ سے انہیں سجادہ نشین نہیں کہا جاتا، نہ ہی انہیں سادھو کہہ کر اپنی متاع، گنگا جمنا کے حوالے کرسکتا ہوں۔ ”ہنگلاجہ پخیر“، یا اِس جیسا نام!!۔

وہ سادھو دونوں ہاتھ جوڑ کر آپ کا استقبال ”ماتا جی کی جے“ سے کریں گے۔ عاجز، منکسر، ملائم اور خوش گفتار۔ بھئی یہ تو ہمارے بلوچ بقال ہیں۔ قمیص شلوار میں ملبوس۔ داڑھی پگڑی والے، ہمارے ہی طور طریقے، ہماری زبان بولتے ہوئے۔ ہاں، البتہ سائیں، بھوتار اور واجہ کے القابات ذرا زیادہ مقدار میں قے کرتے ہوئے۔ اقلیت میں ہونا ایک طرح کی غلامی ہوتی ہے۔ مگر یہ اقلیت تو کسی بورژوا صنعتی معاشرے میں بھی نہیں رہتی۔ یہ تو فیوڈل سندھ میں رہتی ہے یا پھر سردار زدہ بلوچستان میں۔ اِدھر ہنگلاج ماتا مندر کے سادھو ہمارے اپنے سردار زدہ معاشرے کے باسی ہیں۔

تماشا دیکھیے کہ پہلے تو سردار کے پاس طاقت بھی ہوتی تھی، اُسی کی جی حضوری کرکے بقیہ چھوٹے چھوٹے ظالموں بدمعاشوں سے محفوظ رہا جاسکتا تھا۔ مگر، اب تو سردار اپنی عوامی پُشتی بانی کب سے کھو چکا ہے۔ بس مرکزی سرکاری پھوں پھاں میں بھتہ وصول کرنے والا مافیائی دادا بن چکا ہے۔ اِس کی پشت پر مرکزی سرکار موجود نہ ہو تو نہ تو وہ الیکشن جیت سکے، نہ وزیر بن سکے، نہ لیویز والے باڈی گارڈ ساتھ رکھ سکے………… لہٰذا اس بے اختیار فرعون کی جی حضوری کرتے کرتے نانی کا بھگت ”ہر“ شخص کو جی حضور کہنے کا عادی ہوچکا ہے۔

مگر عادتیں تو چھوٹتے چھوٹتی ہیں۔ ابھی تو وہ بات سنیے جوہمارے راہنما دوست نے کہی تھی اور جو ہمیں سب سے اچھی لگی۔ ہوا یوں کہ کراچی کی سحر بلوچ ہم سے ناواقفیت کی بنا پر گروپ فوٹو سے ہچکچارہی تھی۔ ٹائٹ جینز پہنی یہ، ننھی منی لڑکی سی لگتی تھی۔ اِن سنسانوں میں جینز وہی خاتون پہن سکتی ہے، جسے کراچی شہر سے نکلنا بہت کم نصیب ہوتا ہو۔ چنانچہ جینز والی ڈان اخبار کی یہ ننھی لگتی رپورٹر، فوٹو کھچوانے گروپ میں آنے سے تکلف برت رہی تھی۔ ایرانی بلوچستان کی یہ لڑکی بلوچی زبان کا ایک لفظ تک بول نہ پاتی تھی۔ تازہ تازہ ملاقات میں بھلا کیسے گھل مل جاتی!۔ اورجیسے ہوتا ہے، وہ ہمارے ساتھ ساتھ ہوتی، باتیں سنتی، محظوظ ہوتی مگر خود بولتی نہ تھی اور گروپ تصویر کشی کے وقت جبلت کے ہاتھوں تین چار گز پرے ہوجاتی۔ گائیڈ کرنے والے ریش بردار پجاری نے، اُس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انتہائی ملائمت سے کہا: ”ماتا جی آپ بھی آئیے ناں!“۔

ننھی منی لگتی سحر بلوچ تو ہمارے ساتھ ہی داستانوں کے غاروں کی سیڑھیاں بلندیاں چڑھتی رہی، خاموش مگر بھرپور سامع۔ بلوچستان کی اِس نئی ثقافتی تاریخی وسعت کو دیکھ کر جس طرح ہم باقی لوگوں کے ذہنوں دلوں کی ہوائیاں اڑرہی تھیں، سحر بلوچ اُس سب سے بے خبر لگ رہی تھی۔ شاید ہم پچپنائے سٹھیائے لوگوں کا احساسِ زیاں اِس نوجوان کو نہیں ہورہا تھا۔
سعدیہ بلوچ تو خیر وطن کی ایک اور نعمت سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ چٹان کے سائے میں بہتی ندی کنارے سگریٹ کے کش لگانے کا اپنا ہی لطف ہوتا ہے۔ پتہ نہیں وہ کوئی شعر سوچ رہی تھی یا دور آسمانوں میں کسی نئی ستی اور شیوکا ملاپ Conceive کررہی تھی۔ وہ کراچی کے صنعتی معاشرہ کی شاعری کرتی ہے۔ مجھے اپنی فرسودگی پسماندگی، نام نہاد اخلاقی گھٹن والی تربیت اور فیوڈل غلام فطرت نے مشہور بھجن سنانے سے روک دیا۔


نانی کے مرید ہمیں معلومات دیتے رہے۔ مگر اُن کی ساری معلومات عقیدے میں گُندھی ہوئی تھیں۔ عقیدہ اور ”آزمانک“ کا آپس میں کوئی سمبندھ نہیں ہوتی۔ آزمانک میں نے متھMyth کو کہا ہے۔ دراصل آسمان کو ہم ”آزمان“ کہتے ہیں۔ اور چوں کہ پری اور دیو آزمانوں میں رہتے ہیں، اس لیے اُن سے متعلق قصے کہانیوں کو ہم ”آزمانک“ کہتے ہیں۔ اور آزمان میں رہنے والی پریاں اور دیو وہی کچھ کرتے ہیں جو زمین پہ ہم انسان کرتے ہیں۔ شادیاں، محبت، اغوا، کثیر بیویاں، مستیاں، شرارتیں …………
مگر یہاں معاملہ گڑ بڑ ہے۔ یہاں ہنگلاج کا ہمارا ملنگ و مجاور تو ہزاروں برس قدیم ہمارا اساطیر کو آج اکیسویں صدی کے بلوچستان کا مُلاّ اور پنڈٹ بنانے لگا تھا۔ لہٰذا اُس کا سارا مبلغ علم ہمارے دانش ور دوستوں کے سائنسی سوالات کے سامنے بار بار گھٹنے ٹیک جاتا تھا۔ ہم اور یہ گائیڈ دونوں نادان تھے اس لیے کہ مجاور مائتھالوجی کو مذہب سمجھ رہا تھا اورہم مائتھالوجی کو سائنس کے گز سے ناپنے کی کوشش کررہے تھے۔

تفصیل اور سوال تو مائتھالوجی کو قتل کردیتے ہیں۔ اور ہم نے اس درے میں موجود بہت سارے گائیڈوں، مریدوں اور پنڈتوں کی معلومات کی لاشیں تڑپتی دیکھیں۔

بھئی 5000 برس پرانے، اساطیر سے بھرے Shrine کی معلومات ایک عام پجاری کیا دے پائے گا۔ ہمیں احساس ہوا کہ یہاں تو مائتھالوجی نامی سائنسی مضمون کے پی ایچ ڈی گائیڈ چاہئیں، یہ مِن مِن کرتے پجاریوں کے بس کی بات نہیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔