دی بلوچستان پوسٹ کتابی سلسلہ
سورج کا شہر (سفر نامہ) – ڈاکٹر شاہ محمد مری
حصہ دوم | پندرہ برس بعد | بلوچستان کی سڑکوں پر……
بلوچستان کا یہ جنوبی ساحلی علاقہ وسطی ایشیا کے بجائے اب مشرق وسطیٰ کا ایک خود سر، بیابان، اور الجھا ہوا بچہ لگتا ہے۔یہاں اب گورا گیری، یا گندمی رنگت کی بجائے سیاہ فامیت بڑھتی جاتی ہے۔ یہاں زمین کے ساتھ ساتھ پانی (سمندر) بھی روزی رسانی میں حصہ ڈالتا جاتا ہے۔ یہاں زمین پہ ٹریفک اور روانی کے ساتھ ساتھ پانی پہ بھی انسانی کنٹرول کے ثبوت ملتے جاتے ہیں۔ یہاں فطرت کی دو (پہاڑ اورزمین) نہیں تین مظاہر موجود ہیں۔ پہاڑ، میدان اور سمندر۔
ہم یہاں رکے کہ کراچی سے سعدیہ بلوچ، ’ڈان‘ اخبار کی سحر بلوچ اور فہیم صدیقی کی ”رینٹ اے کار“ نے یہاں آن ملنا تھا۔ ایک کڑک چائے پینے کی کوشش کی، مگر حسرت ہی رہی۔ زیرو ہم سے بائیں طرف جوتھا۔………… انسان خود کو ایک کا ہندسہ بنا کر ساری زندگی زیرو کو اپنے دائیں طرف گھسیٹ لانے کو پسینہ بہاتا رہتا ہے۔ مگرزیرو، بدبخت تھرکتے پارے کی طرح دائیں بائیں مچلتا رہتا ہے اور ساتھ میں اپنے طلب گار کو بھی تگنی کا ناچ نچاتا جاتا ہے۔ یہ مستقلاً دائیں جانب قیام نہیں کرتا۔ زیرو، سب سے بڑا رقاص!!۔
کراچی والے وہ لوگ آگئے۔ سلام دعا ہوئی اور ہم روانہ ہوگئے۔ اب کے ہمارا رخ مغرب کی طرف تھا۔ چل سو چل۔ وسعتیں بلوچستان میں سمٹنے کے تصور سے ناآشنا ہیں۔ گز، کلیر، کہیر، گیشتر، اور پیر کے جانے پہچانے درخت اور جھاڑیاں گزرتی رہیں۔ ان میں کچھ گدھے، کچھ اونٹ، اور کہیں کہیں انسان نظر آئے۔ سپاہی بھی۔ ہم نے اپنے سامنے حدِ نظر تک لیٹے ہوئے ایک طویل پہاڑ کا جنوبی سرا پکڑنا تھا اور وہاں سے مڑ کر پھر اُس کی دوسری طرف اُسی کے ساتھ ساتھ سمندر اور اُس کے بیچ سفر کرنا تھا۔
یہاں ہم ایک بحث میں پڑ گئے۔………… وہ یہ کہ سڑک اور ٹکنالوجی جسمانی اور ذہنی آسودگی تو دیتی ہیں مگر کیا یہ ذہن کو بھی آزاد کرتی ہیں؟۔ کیا ٹکنالوجی اُسی مناسبت سے روشن فکری بھی دیتی ہے؟۔ جیئند خان سڑک و ٹکنالوجی کی نعمتیں گنواتا رہا۔ ہم بھی اتفاق کرتے رہے۔ اور اُس جزوی ذہنی نجات کی بھی تائید کرتے رہے جو یہ عطا کرتی ہیں۔ ہر سائنسی، علمی، تجرباتی نئی دریافت، روایت رواج اور عقیدہ کو زخم لگاتی ہے۔ یہ مل کر چیختے چلاتے ہیں، غراتے ہیں، حملہ کرتے ہیں مگر پھر بالآخر مجبور ہوکر دُم دبا کر بھاگ جاتے ہیں………… اور پھر جب لوٹتے ہیں تو اس نئی ایجاد کو مان لیتے ہیں۔ دُم کھڑی کرکے بتاتے ہیں کہ یہ ایجاد تو ہماری فلاں شاعری، ضرب المثل اور فرمان کے طفیل ہی ہوئی ہے۔ اِس کی خبر تو صدیوں قبل ہمارے اکابرین نے دے رکھی تھی۔
مگر کمال بات دیکھیے کہ صدیوں سے موجود علم نے ایران کا کچھ نہ بگاڑا اور وہاں نصف صدی سے بدترین ملاّئی نظام قائم ہے، اِسی طرح ٹکنالوجی نے امریکہ کا کچھ نہ بگاڑا جس کا صدر اب بھی ہنو مان کی مورتی جیب میں رکھے بد ترین سامراجیت میں غلطاں ہے۔ تو اُس مظہر کو کیا کہیے گا؟۔ پس ثابت ہوا کہ انسانوں کی خرد افروزی، اور روشن فکری کے لیے علم، سڑک اور ٹکنالوجی ہی نہیں، کچھ اور عناصر اور مظاہر کا ہونا بھی ضروری ہے۔
بحث، بحث اور بحث۔ نتیجہ؟۔ ہم نے نتیجہ اخذ کرنے کے لیے یہ بحث چھیڑی ہی نہ تھی۔………… جی ہاں، بلوچستان کے دور دراز کے سفروں کے مسافر ایسا بھی کرتے ہیں!! (مگر لاہور اور کراچی کے سیاسی ورکر اور دانش ور تو ساری زندگی یہی کرتے رہتے ہیں، پتہ نہیں کیوں؟)۔
یہ آیا کُنڈ ملیر۔ ہمارا سمندر یہیں سے ہمارا ساتھی بنا۔ ہماری اس دوستی نے گوادر تک ہمارا ساتھ دینا تھا، منزلِ مقصود گوادر تک۔ پانچ سو کلومیٹر تک ساحل ہی ساحل کا سفر!!۔ ایک بالکل ہی نیا رنگ، نئے پیداواری رشتے، نئی طرزِ حیات۔ یار یہ بلوچستان کیا عجوبہ جگہ ہے!! آنکھوں پہ زور لگا کر تاحدِ نظر، نظریں دوڑائیں، ایک ہی منظر میں سمندر کے شیڈز فرق فرق نظر آتے ہیں۔ یہاں پانی سبز ہے، اُسی سے ذرا سا آگے دیکھیں، ارے یہ اگلا شیڈ تو بھورا ہے، اُسی سے متصل پھر نیلا، پھر سیاہ نیلا۔ جیسے کسی ماہر مصور کی پینٹنگ ہو۔ ہم خوش قسمت تھے کہ ہماری منزل کے آخری پڑاؤ گوادر تک ہم نے سمندر کے ساتھ ساتھ سفر کرنا تھا۔
سمندر کا کنارہ، آبادی، اور ایک پیر کی موجودگی سمجھ میں آتی ہے۔ اس لیے کہ بلوچ پیر رکھتا ہے، اپنے مال مویشی کی حفاظت کے لیے، اپنی جان و آبرو کی حفاظت کے لیے (وہ سردار بھی تقریباً اسی لیے رکھتا ہے، بندوق بھی ………… اور شاید ایک کتا بھی)۔ مگرمیں حیران اس بات پہ ہوا کہ اِس پیر کا نام اسماعیل شاہ غازی تھا۔ اورکراچی والے ہمارے پیر کا نام عبداللہ شاہ غازی تھا۔ اب پتہ نہیں یہ لوگ ”غازی“ کیوں تھے؟۔ عبداللہ تو کراچی کے بلوچوں کو (دوسروں کو بھی) سمندری طوفانوں آفتوں سے بچاتا ہے۔ ابھی پچھلی بار سمندری طوفان کے موقع پر ٹی وی پہ سندھ کا اکیسویں صدی کا وزیراعلیٰ کہہ رہا تھا کہ، ہمیں کوئی خطرہ نہیں، عبداللہ شاہ غازی وہاں ساحل پہ کھڑا (پڑا) ہماری حفاظت کرے گا۔ مگر، یہاں کنڈ ملیر میں چلتے سفر میں ہمیں موقع ہی نہ ملا کہ اسماعیل شاہ غازی کا استعمال معلوم کرسکیں۔ کوئی بڑا شہر تو یہاں ہے نہیں کہ وہ اُسے سمندری طوفانوں سے بچائے۔ کسی سے ضرور معلوم کرکے بتاؤں گا۔
بلوچی ضرب المثل ہے کہ ”انسان کی پہچان یا سفر میں ہوسکتی ہے یا جیل میں“۔ جیل میں تو میں، صرف جیئند خان کے ساتھ رہا ہوں مگر وہ بھی مختصر وقت کے لیے۔ ہم دونوں کے بیرک بھی جدا تھے۔ یہ ضیاالحقی مارشل لا کا زمانہ تھا۔ ہم افغان انقلاب کے دفاع میں، حمید بلوچ کی شہادت کے خلاف جدوجہد کی پاداش میں کوئٹہ جیل میں تھے۔ مگر،ضیا شفیع اور عابد میر کے ساتھ میرا جیل میں ساتھ رہنے کا اتفاق نہ ہوا۔
البتہ سفر میں آج ہم اکٹھے تھے، گذشتہ دو دنوں سے۔ اور وہ بھی ایک ہی کار موٹر میں۔ تو اتنے طویل سفر میں آپ گھل مل جاتے ہیں، آپ کا ظاہر باطن ایک دوسرے سے آشنائی حاصل کرتے ہیں۔ انسان کی اصلیت سامنے آجاتی ہے، بشرطیکہ آپ انسان ہوں۔ بادشاہوں، سیاست کاروں، سرداروں اور اداکاروں کی بات الگ ہے۔
لہٰذا اب ہم گھل مل چکے تھے۔ راستہ بھر ہم لطیفے بازیاں کرتے رہے، سفر کٹنے کو ہم نے لوک کہانیوں کا بھی ایک مقابلہ منعقد کیا، ہم نے ٹیپ پر انگلش اردو بلوچی گانے ترانے سنے، اسی طرح ہم نے بلوچی ڈیہی اور دیگر اصناف ِ شعر کی گاگا کر بیت بازی بھی کی۔ ہم نے تاریخ پر گفتگو کی، ہم سیاست اور ادب پہ بولے………… اور ہم نے پہیلیاں بھی عین قواعد و ضوابط کے ساتھ بُجھوائیں۔ پہیلی کو بلوچی، میں ”چاچ“ بھی کہتے ہیں اور ”بند“ بھی۔ ”بند“ قدیم بلوچی میں استعمال ہوا ہے: بندے کہ بستہ چاکرا/ رِندہ قویہیں واژہا / بند بوژغئے جاہا نہ یا ………… ہم مقابلہ کرتے رہے۔ مگر آخری پہیلی جومیں نہ بُوجھ سکا تو ہمارا یہ پہیلی ٹورنامنٹ غیر اعلانیہ طور پر ختم ہوا، اور ہم اِس پہیلی کے جواب کو موضوع بنا کر دیر تک گفتگو کرتے رہے۔جیئند خان اور ضیا شفیع کی مشترکہ پہلی جو میں نہ بوجھ سکا، یوں تھی۔: منی پیر کئے پاغ چو گرّاننت و گراننت …………“۔(میرے داداکی پگڑی اتنی لمبی کہ سر پہ پیچتے ہی جاؤ پیچتے ہی جاؤ، کبھی ختم نہیں ہوتی)۔
میں پہیلی نہ بُوجھ سکا۔ قواعد کے مطابق ناکامی کے اعتراف کے ساتھ جرمانہ کے بطور مجھے ایک شہر اُنہیں دینا تھا۔ میں نے”مچ“ کا شہر انہیں دے دیا۔ تب انہوں نے جواب بتانے سے پہلے شاعری جیسے یہ جملے بلند آواز میں بولے: ”اَل کناں بَل کناں ………… کوکراں جل کناں ………… ہنجگاں پُل کناں، میتگئے تہا مَل کناں“۔………… مشرقی بلوچستان میں البتہ اِن جملوں کے بجائے یوں کہتے ہیں: مچ باپل، مچ باجُھل، باث منی میشانی دفا ”(مچ خدا کرے پُر بہار ہو، سبزہ و چراگاہ ہو، اور میری بھیڑوں کے منہ میں ہو)۔ انہوں نے پہیلی کا جواب بتایا: سڑک۔
ارے واہ بلوچستان کی سڑک جو موڑ پہ موڑ مڑتی ہے، بلندیاں اترائیاں پھلانگتی جاتی ہے مگر چلتی ہی جاتی ہے، ختم ہونے میں نہیں آتی۔ سفر، بلوچستان کا سفر۔ چلتے ہی رہو، چلتے ہی جاؤ۔ مناظر بدلتے جائیں گے، گھنٹے گزرتے جائیں گے۔ مگر منزل؟ ابھی ایک پہاڑ آگے، ابھی ایک دشت اور۔………… بلوچستان کی سڑک، دادا کی پگڑی!!
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔