زہرِ قاتل ہے میری زندگی – محمد خان داؤد

150

زہرِ قاتل ہے میری زندگی

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

سندھ اور بلوچستان کا سمندر اور ساحل ایسے بیچ دیے گئے ہیں
جیسے جمال ابڑو کی کہانی ،،پیرانی،، میں پیرانی بیچ دی جاتی ہے

نہ تو سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کو معلوم ہے کہ ان کا سمندر، ان کا ساحل اور ان کے وہ گھڑ گھاٹ(راستے) بیچ دیے گئے ہیں اور نہ ہی پیرانی اور پیرانی کی اماں کو معلوم ہوتا ہے کہ پیرانی بیچ دی گئی ہے۔ جب نیلی، سفید اور خاکی وردی والے ماہی گیروں کو ان گھڑ گھاٹ سے پانیوں میں اترنے نہیں دیتے اور جب کوئی بڑی مونچھوں والا آتا ہے اور پیرانی کے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالتا ہے
جب معلوم پڑتا ہے کہ سمندر بھی بک چکا ہے
ساحل بھی بک چکا ہے
اور پیرانی بھی
جب تک تو کافی دیر ہو چکی ہوتی ہے

اول تو ماہی گیر مسکین ہوتے ہیں کوئی مزاہمت نہیں کرتے اور اگر مزاہمت کرتے بھی ہیں تو اس مزاھمت میں ایسی کوئی دیدا دلیری نہیں ہو تی کہ لائیو نشریات کا رُخ ان ماہی گیروں کی طرف ہو جائے۔
پھر تو بس پیرانی کی ماں کی یہ صدائیں پو رے سندھ اور پو رے بلوچستان میں سنائی دے رہی ہوتی ہیں کہ
،،ہائے میری پیرانی
میری بھوکی پیرانی
میری پیاسی پیرانی
میری معصوم پیرانی!،،

سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں کی زندگی سمندر سے منسلک ہے۔ پر سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیروں سے سمندر چھینا جا رہا ہے۔ بلکہ چھینا جا چکا ہے۔ بلوچستان کے کتنے ماہی گیر ہیں جو اپنی کشتیاں گوادر پورٹ پر لنگرانداز کرتے ہیں؟ اتنے ہی ماہی گیر کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم پر اپنی کشتیاں لنگر انداز کرتے ہیں۔ اب تو سندھ کے ماہی گیر ان چھوٹی چھوٹی بندر گاہوں سے بھی نہیں گزرتے، جہاں پہلے وہ اپنی کشتیاں ہی کیا پر ان کشتیوں کے ساتھ اپنے دل بھی باندہ آتے تھے۔ اب ان چھوٹی بندر گاہوں پر ان ماہی گیروں کا کچھ بھی نہیں۔ کراچی کا پورا ساحل ماہی گیروں کے ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔

اب کراچی کے پو رے ساحل پر ملٹری قابض ہے۔ نیلگوں پانی کے کناروں پر اب کوئی نہ کوئی کلب قائم ہے اور ان کلبوں پر ان ماہی گیروں کا گذر ایسا ہی حرام ہے جیسا کسی وقت میں تعلیمی اداروں، ریل کے ڈبوں، اور ہوٹلوں پر لکھا ہوتا تھا کہ
،،یہاں انڈین اور کتوں کا آنا منع ہے!،،

کراچی کے ساحلوں پر اب یہی صورت حال ہے۔ مبارک گوٹھ سے لیکر گھارو کے ساحل تک امیر آدمیوں اور وردی والوں کے باہمی تعاون سے بہت سے کلب بنا دیئے گئے ہیں، جن کلبوں کے پاس سے بھی ماہی گیر نہیں گزر سکتے حالاںکہ ان ہی ساحلوں سے صدیوں سے یہ ماہی گیر نیلے پانیوں میں اترتے رہے ہیں، پر اب ایسا ممکن نہیں۔ اب ایسا ہرگز ممکن نہیں۔ اگر ماہی گیر ضد پر اتر آتے ہیں تو وہ بندوق پر۔

اور کراچی کے وہ ساحل جہاں پر ابھی تک پیسے اور وردی کی اجارہ دا ری نہیں وہاں پر بندوق کی اجارہ دا ری ہے۔ وہ ساحل کراچی کے مضافاتی دہشت گردوں کے پاس ہیں اور وہ ماہی گیروں کو وہاں سے بھی پانی میں اترنے نہیں دیتے تو پھر وہ ماہی گیر کہاں جائیں؟

ماہی گیری پپ جی گیم نہیں کہ گھر میں بیٹھے کھیلا جائے۔ ہاں یہ تو ہوسکتا ہے کہ ماہی گیروں کے سیاسی لیڈران جو اب امیر ہو چکے ہیں وہ اپنے پڑھے لکھے بچوں سے پپ جی گیم سیکھ بھی لیں اور اپنے محفوظ گھروں میں بیٹھ کر کھیلتے بھی رہیں، پر سندھ اور بلوچستان کے لاکھوں ماہی گیروں کو اپنے پیٹ کے لیے سمندر کے پیٹ میں اترنا ہوتا ہے اور وہ گھڑ گھاٹ وہاں سے ہوتا ہوا گذرتا ہے، جہاں پر ساحل ہو اور سندھ اور بلوچستان کے تمام ساحلوں پر دہشت گرد قابض ہیں انہوں نے اپنے گنڈے رکھے ہوئے ہیں تو ماہی گیر نیلے گہرے پانیوں میں کیسے اتریں؟

یہ سوال کوئی آج کا نہیں ہے یہ سوال بھی ماہی گیروں پانیوں میں اترنے کے جتنا پرانا ہے۔

پہلے ماہی گیروں سے دھرتی چھینی گئی۔ پھر ماہی گیروں سے پانیوں کے بیچ میں موجوف جزیرے چھینے گئے۔ پھر ماہی گیروں سے ساحل چھینے گئے۔ پھر ماہی گیروں سے وہ ساحلی راستے چھینے گئے جن راستوں کو وہ نشان بنا کر پانیوں میں اتر جا تے تھے۔ پھر ماہی گیروں سے وہ پانی بھی چھین لیا گیا جس پانی میں وہ اتر کر اپنے بچوں کا رزق تلاش کرتے تھے اور پیچھے کچے گھروں میں محبتیں منتظر رہتی تھیں۔

گہرے پانیوں میں ماہی گیروں کے دل دھڑکتے تھےاور کچے گھروں میں محبتوں کے دل بے چین اور بے قرار رہتے تھے۔ پھر نئی قزاقی کا دور شروع ہوا۔ گہرے پانیوں میں سرداروں، بھوتاروں، نوابوں، رئیسوں، جاموٹوں، بھوتاروں کے قزاق بندوق لیے پہنچ جاتے ماہیگیر دن کی گرمی اور رات کی تاریکی میں جو کچھ شکار کر پاتے ہیں، وہ شکار وہ قزاق لوٹ لیتے اور انہیں بندوق کے زور پر دھمکی بھی دیتے کہ اب ان پانیوں میں نہیں اترنا۔

یہ قزاقی کی چھوٹی شکل تھی۔ پھر بھی ماہی گیر کہیں نہ کہیں سے گہرے پانیوں میں اتر ہی جاتے اور شکار بھی کرتے، پر سندھ سرکار کے فشری کے منسٹر اور FCSکے مینجر تو بڑے قزاق ہیں انہوں نے تو بالکل ہی نیلا سمندر بیچ دیا۔ اب اگر ماہی گیر پانی میں اتر بھی جائیں تو انہیں کیا ہاتھ آئیگا؟

اب ان گہرے پانیوں میں وہ جہاز تیرا کریں گے جن کے پاس جدید آلات ہیں۔ جدید ساز و سامان ہے، نئی ٹیکنالوجی ہے، جس سے وہ سمندر کے سینے کو ایسے صاف کر دیں جیسے گھروں میں وائپر سے پانی صاف کیا جاتا ہے۔ پھر اس نیلے پانی میں کیا بچے گا جو سندھ اور بلوچستان کا ماہی گیر شکار بھی کریگا اور اپنے بچوں کا گزر بھی کر سکے گا۔ جب وہ بڑے جہاں ڈیپ سی میں جاکر فشنگ کریں گے تو ساحلوں میں کون سے مچھلی آئیگی؟ اور سندھ، بلوچستان کے ماہی گیروں کے پاس نہ تو وہ جہاز ہیں اور نہ ہی وہ آلات جن سے وہ جدید طریقوں سے ماہی گیری کر سکیں

اگر سندھ اور بلوچستان کے ماہی گیری ہی ترقی،خوشحالی اور امیری دیکھنی ہے
تو وہ کیٹی بندر چلا جائے اور پسنی!
وہ دیکھ پائیگا کہ سندھ اور بلوچستان کا ماہی گیر زندگی کیسے بسر کر رہا ہے
وہی جمال ابڑو کی پیرانی ہوگی
ننگی
بھوکی
پیاسی
بیمار
اور کوئی آئیگا اور پیرانی کے ہاتھ میں پکڑے گا اور اسے لے جائیگا
اور ماہی گیروں کے حقوق پر فراڈ کرنے والوں کی کیا بات کی جائے
وہ تو ڈرٹی پولیٹکس میں ہی غرق ہیں، ان میں تو اتنی بھی جرئت نہیں کہ وہ سندھ کے فشری کے منسٹر اور FCSکے مینجر کے سامنے یہ زور دار نعرہ لگائیں کہ
،،زہرِ قاتل ہے میری زندگی!ڈیپ سی فشنگ ٹرالز!،،


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔