حیات کا شناختی کارڈ – عبید اللہ ابدال

566

حیات کا شناختی کارڈ

تحریر:عبید اللہ ابدال

دی بلوچستان پوسٹ

زمانہ طالب علمی تھا۔ ہمارے سکول کے ہیڈ ماسٹر نے سٹوڈنٹ آئی ڈی کارڈ دیتے ہوئے سمجھایا تھا کہ “بیٹا جب کہیں سفر کرو تو یہ کارڈ دکھا کر کرایہ آدھا دینا۔ اگر بس والا بدتمیزی کرے تو مجھے بتانا اگر بس والے کو سزا نہ دلوائی تو کارڈ میرے منہ پر مارکر اپنے 20 روپے واپس لے جانا۔

حالانکہ سینکڑوں بار بسوں میں آدھا کرایہ دینے پر بدتمیزی کا سامنا کرنا پَڑا۔ ایک بار اسٹوڈںٹ کارڈ میں نے ایک تحصیلدار کے منہ پر مارا کیونکہ کرایہ پر بدتمیزی کی شکایت کو اُس نے نظرانداز کردیا لیکن کارڈ میں نے کبھی ہیڈ ماسٹر کے منہ پر نہیں مارا کہ اُس کی طرف سے کارڈ کی اہمیت کے بارے میں دیا گیا سبق یاد ہوگیا تھا۔

حیات بلوچ کے پاس کراچی یونیورسٹی کا کارڈ تھا لیکن بلوچستان پر قابض مسلح طاقتوں کے سامنے پاکستانی قومی شناختی کارڈ ہی بے وقعت ہے تو کراچی یونیورسٹی کی کیا حیثیت؟

یہ مسلح لوگ جو یہاں پر قابِض ہیں یہ کوئی مافیا ہیں یا خونخوار درندے ہیں۔ اِن کا کسی ریاست سے کوئی تعلق نہیں ۔ یہ کسی آئین کے پابند نہیں۔ یہ کسی قانون کو مانتے نہیں۔ ورنہ پاکستان ایک جغرافیائی نقشے کا نام ہے جس کے حدود کے اندر یہ بدبخت بلوچستان بھی اپنے اِن بے وقعت لوگوں کے ساتھ شامِل ہے۔ اگرچہ اس پارہ زمین کو بزور طاقت شامِل کیا گیا ہے لیکن دنیا کے دیگر انسانی آبادی کا تصور یہی ہے کہ اس سرزمین پر بسنے والی مخلوق بھی انسان ہیں اور اِن کے بھی وہی حقوق ہیں جو دنیا کے بقیہ انسانوں کے لئے مخصوص ہیں۔

دنیا پاکستان کے نام سے ایک ریاست کا تصور بناتی ہے اور پاکستان بھی خود کو دنیا کے سامنے ایک ریاست کے طور پر پیش کرتی ہے، اِسی لئے تو اِس کی ایک باقاعدہ ترتیب بھی رکھی گئی ہے اور ایک دکھاوے کی آئین بھی ہے۔ جدید ریاستی تصور میں ریاست اور شہری کے درمیان واحد رشتہ ہی آئین ہوتا ہے جو شہری اور ریاست کے باہمی حقوق کا تعین کرتا ہے۔ پاکستانی آئین بھی اپنے شہری کو ایک شناختی کارڈ دے کر یقین دلاتا ہے کہ اُس کی جان و مال کی حفاظت کو مقدم رکھنے کے لئے ایک طاقتور منظم اور فعال لشکر رکھی جائیگی لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ شہری کی حفاظت کے لئے متعین سرحدات کے محافظ کسی ریاست پاکستان کو مانتے نہیں ورنہ قومی شناختی کارڈ کامطلب یہی ہے کہ حامِل کارڈ کسی بھی اندرونی و بیرونی خطرے کی صورت میں لشکر ِخاص کی ترجیحی حفاظت کا حقدار ہے۔

بلکہ اِن سرحدوں کے اندر قومی شناختی کارڈ ہولڈر کا اعتبار لازمی ہے یعنی حامِل کارڈ یہ حقدار ہے کہ اِسے خاص حالات میں کچھ رعایتیں دی جائیں جیسے کہ بیرونی سرحدوں سے ریاستی حدود میں داخلے کے وقت اِس سے پاسپورٹ اور ویزا نہ مانگا جائے۔ اِسے ووٹ ڈالنے دیا جائے وغیرہ وغیرہ

لیکن بلوچستان کی حدود میں موجود باوردی اسلحہ بردار نہ اِس شناختی کارڈ کا اعتبار کرتے ہیں نہ کسی ہونیورسٹی کا۔ جب ایک اَن پڑھ باوردی اسلحہ بردار ایک نوجوان کو پہنچ میں دیکھتا ہے تو آئین و قانون و قواعِد و ضوابِط فوت ہوجاتے ہیں۔

ورنہ یہاں رائج کس قانون میں لکھا ہے کہ باوردی اسلحہ بردار کسی بھی نہتے کو راہ چلتے مجرم قرار دیں اور اُسے موت کی سزا دیں۔

اگر یہ لوگ اِسی ریاست کے تصور کو مانتے ہیں تو اِس کے قانون پر خود سختی سے عملدرآمد کریں ورنہ ہزاروں لاکھوں انسانوں کا قانون کے نام پر قتل عام بند کردیں۔

جب یہ ادارے خود کسی قانون کو نہیں مانتے تو دوسروں کو کس قانون کی خلاف ورزی پر یہ انسانیت سوز سزائیں دے رہے ہیں۔

کراچی یونیورسٹی سمیت ریاست پاکستان بھی لوگوں کو یہ بے وقعت شناختی کارڈ دینا بند کردیں یا اپنے کارڈ کا اعتبار یقینی بنائیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔