جام کمال تم تاریخ کے کباڑ خانے میں گُم ہو جاؤ گے – محمد خان داؤد

182

جام کمال تم تاریخ کے کباڑ خانے میں گُم ہو جاؤ گے

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

حیات بلوچ کے ناحق قتل پر بلوچستان کے تین کروڑ انسان سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔ تربت سے لیکر شال تک، لورالائی سے لیکر سبی تک ایک شور برپا ہے۔ حیات بلوچ کے قتل پر پورے بلوچستان میں ایک شور سا سنائی دے رہا ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ وہ اس کجھور کے مزدور کے بیٹے کا قتل نہیں ہوا پر پو رے بلوچستان کے ہر گھر سے ایک نوجوان کا قتل ہوا ہے۔ اور بس وہ ایک گھر ہی نہیں پر بلوچستان کا ہر گھر ماتم گھر بنا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ اس قتل کا شور سندھ، پنجاب، خیبر پختون خوا سے ہوتا ہوا ان وادیوں میں بھی سنائی دے رہا ہے، جن وادیوں میں انگوروں کی بیلیں کھلیتی ہیں انگوروں کے گوشے کھلتے ہیں پر اب اس قتل سے وہ وادی بھی سُرخ سرخ ہو چکی ہے۔ سوات کیا کالام کیا، گلگت کیا، چترال کیا پر اس لہو رنگ نے ہر مظلوم طبقے وہ خون آشام دن،وہ خون آشام صبح،وہ خون آشام رات یاد دلا دی ہے جس رات میں ایک ماں کا حیات قتل ہوا اور پو ری دنیا میں یہ محسوس کیا گیا کہ اس کاحیات قتل ہوا۔

اس ماں کو یہ شکایت نہیں رہی ہو گی کہ اس کا درد محسوس نہیں کیا گیا
اس ماں کو یہ شکایت نہیں رہی ہوگی کہ اس کے درد میں کوئی رویا نہیں
اس ماں کو یہ شکایت نہیں رہی ہو گی کہ وہ کیا کرے اور اس کے ساتھ کون روئے؟

اس ماں کوایسی کوئی شکایت نہیں رہی ہو گی جیسی شکایت پنہوں کی تلاش میں دوران سفر سسئی کو رہی تھی اور سسئی کے دردوں کو دور کرنے اور سسئی کے ساتھ رونے کو کوئی ساتھ نہ تھا اور لطیف نے سفر کے درمیان پتھروں سے کہا تھا کہ وہ سسئی کے ساتھ روئیں اور سسئی کا غم ہلکا کریں
اور سسئی پتھروں سے کہہ چکی تھی کہ
،،ڈونگر مون سین روئے،کڈھی پار پنہوں جا!،،
اور پتھر بھی سسئی کے ساتھ غمِ یاراں،غمِ ہجراں میں اشک بار تھے

پر حیات کی ماں کے ساتھ ایسا نہ تھا۔ اس ماں کے ساتھ تو بلوچستان کے انسانوں سے لیکر پہاڑ تک روئے تھے۔ سندھ کے زندہ لوگوں سے لیکر وہ قبریں بھی روئیں تھیں جن قبروں میں آزادی کے اسیر۔بے موت ما رے گئے شہزادے دفن ہیں وہ بھی روئے تھے،روحی کے لوگ کیا،پر روحی کا چولستان بھی اشک بار تھا۔ملتان کی میٹھی بولی کیا پر وہ مزارات بھی آنسو آنسو تھے جن سے اس دن عقیدت نہیں پر غم گساری ٹپک رہی تھی۔پنجاب سراپا احتجاج تھا۔پشاور کے پھولوں جیسے باشندے کیا پر اس دن سے لیکر پشاور کے پھول میں اداس ہیں۔وزیرستان کے پہاڑ اک دوسرے سے پوچھتے پھر رہے ہیں کہ
،،ہم تو بارود کو جھیل لیتے ہیں دھرتی کی مائیں آگ اور بورود کو کیسے اپنے پیاروں اور اپنے بند پر جھیلتی ہونگی؟!،،
،،ہم تو سُرخ لہو کو پتھروں اور خاکی زمیں پر برداشت کر لیتے ہیں معصوم دل رکھنے والی مائیں اپنے جسموں کے حصوں جیسے بیٹوں کے جسموں سے نکلتا لہو کہاں اور کیسے برداشت کرتی ہونگی؟!،،
اور جب ان پہاڑوں کو ایسے سوالوں کاکوئی جواب نہیں ملتا تو وہ اپنی چوٹیوں پر کوئی نیا پھول نہیں کھلاتے وہ اپنی چوٹیوں پر سفید برف کا نرم گولا گرنے نہیں دیتے ان کے سر شرم سے جھک جا تے ہیں۔

حیات کے قتل والے دن پھولوں میں نئے پھول نہیں کھلے۔ درختوں میں نئے پھلوں کے پھول نہیں آئے اور ان درختوں نے غم کی حالت میں اپنی شاخوں سے پتے گرائے۔سمندر میں جو لہریں آتی ہیں اور واپس لوٹ جاتی ہیں اور ساحلوں پر چلتے پیروں کے نقوش نقش ہو جاتے ہیں۔ حیات کے قتل والے دن بس سمندر میں لہریں پیچھے کی طرف ہٹتی رہیں وہ لہریں واپس نہیں آئیں جو پانی تھا وہ گہرائی میں چلا گیا۔ساحل نے اپنے سینے پر کسی چلتے پیر کے نقش، نقش نہیں کیے ان ساحلوں پہ جو کچھ تھا وہ سب کچھ مٹ گیا۔اس دن بھینسوں نے کم دودھ دیا۔بچھڑوں نے ماؤں کے تھنوں سے لگ کر ماؤں کا دودھ نہیں پیا۔ بوڑھے فروٹ فروشوں نے اس دن اپنی دکانوں پر فروٹ نہیں سجائے۔ پھول فروش پو را دن دکانیں بند کیے اداس رہے انہیں معلوم تھا کہ آج کے دن جو بھی پھول خریدیں جائیں گے وہ کسی کے گلے کا ہار نہ بنیں گے وہ یا تو حیات کی اداس لاش یا اس کی علامتی لاش پر ہی ڈالے جائیں گے۔

اس دن پہلی بار ماں بننے والی خوبصورت لڑکیوں نے اپنے بچوں کے منہ میں پستان نہیں دیئے، بچے بھوک سے بلبلا تے رہے۔ اور ان ماؤں کے پستان دودھ کے زیرِ بار رہے پر وہ جانتی تھیں کہ آج وہ پستان ان منہ میں نہ جائیں گے کیوںکہ اس سے بڑا اور کوئی احتجاج نہ ہوگا، سو انہوں نے وہ احتجاج بھی کیا۔ اس دن کنوؤں کا پانی نیچے چلا گیا۔ نہروں نے اپنی بغلوں سے پانی نہ بہایا۔ دریا پیچھے کو ہٹ گئے۔ دن تھا جس پر ماتمی رنگ چڑھ گیا اور رات تھی تو بہت پہلے چھا گئی۔ نہ چاند کا پتا تھا اور نہ تاروں کا اور سورج تھا تو وہ سوا نیزے پر! اور حیات کا خون تھا وہ جو تربت کی زمیں پہ گرا آج تک خشک نہیں ہوا۔
بھلا اور کوئی کیسے احتجاج کرتا؟
بلوچستان تو اس دن سے حال ماتم میں ہے
بلوچستان کی دھرتی اور بلوچ مائیں کچھ نہ جان پائیں کہ یہ ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے
بس دھرتی اور ماؤں کے منھ پر ڈھلکتی چادر ہے اور وہ اپنے جواں سالہ بچے کے لیے ماتم کر رہی ہیں
نزار قابانی نے کہا تھا کہ
،،جب ایک خوبصورت عورت مر جاتی ہے
دھرتی اپنے محور سے کھسک جاتی ہے
چاند ایک سو برس کے سوگ کا اعلان کرتا ہے
اور شاعری بے روزگار ہو جاتی ہے!،،

پر نزار قابانی نے یہ نہیں کہا کہ جب ماؤں کے جوان بیٹے مارے جائیں اور جب مائیں یتیم ہو جائیں جب قدرت کا رنگ کیا ہوجاتا ہے؟!

جب حیات بلوچ کے ناحق قتل پر ہر سمت سے احتجاج ہو رہا ہے تو بلوچستان کا وزیر اعلیٰ کیوں خاموش ہے؟ جام کمال اس ماں کے پاس کیوں نہیں جاتا جس کی نیند اور خواب قتل ہوئے، جام کمال اس ماں کے سر پر ہاتھ کیوں نہیں رکھتا جس کے نین ایسے برس رہے ہیں جیسے سندھ میں ساون کی برکھا!

جام کمال اس دکھی ماں کے زخمی دل کی رفو گیری کیوں نہیں کر رہا جس کا دل پھٹ کہ رہ گیا ہے
جام کمال اس ماں کے سر پر چادر کیوں نہیں رکھ رہا جو بھرے پرے بلوچستان میں اکیلی ہوگئی ہے۔
نہیں جام کمال نہیں جائیگا
اس ماں کے پاس نہیں جائیگا جس ماں کے ساتھ لطیف والے سفر کے پتھر رو رہے ہیں
پر جام کمال میں اتنی بھی اخلاقی جرئت نہیں کہ وہ اس ماں کے لیے ایسا ٹوئٹ ہی کرلے جیسی نظم نزار قابانی نے اپنے دوست کے قتل پر اس کی ماں کے لیے لکھی تھی کہ
،،مجھے تم بہت یاد آتی ہو
جب میں سفید رنگ کو دیکھتا ہوں
کیوں کہ تمہاری زلفیں بھی تو برف رنگ کی ہیں
وقت لمحوں کی اداس جھیل ہے
ایک ایک پل کے قطروں سے
جنم لینے والی اک اداس جھیل!!!
تم کیسی ہو؟
تمہا رے حالات کیسے ہیں؟
مجھے نہیں معلوم
مگر میں اندازہ لگا سکتا ہوں!!!،،

بلوچستان کو معلوم ہے جام کمال کم ایسا کچھ نہ کرو گے اور تم بہت جلد تاریخ کے کباڑ خانے میں گم ہو جاؤ گے جیسے پہلے تم سے اور لوگ گم ہو گئے
تاریخ کے کباڑ خانے میں
تاریخ کے کباڑ خانے میں!


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔