بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے احتجاج جاری

156

میرے گھر سوراب میں فائرنگ کی گئی، اب بھی کوئی کاروائی عمل میں نہیں لاہی گی، نا ہی کوئی گرفتار ہوا اور نہ ہی ڈی سی سوراب بمعہ انتظامیہ معطل ہوا۔ ان خیالات کا اظہار وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے احتجاجی کیمپ میں کیا۔

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4041 دن مکمل ہوگئے۔ سیاسی و سماجی کارکن عبدالرشید، عبدالغنی، پی ٹی ایم کے آغا زبیر شاہ، منظور کاکڑ اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کیا۔

وی بی ایم پی رہنماء ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ میں وزیر اعلیٰ بلوچستان، وزیر داخلہ بلوچستان اور چیف سیکریٹری بلوچستان سے اپیل کرتا ہوں کہ مجرموں کو گرفتار کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ گواہوں اور دیگر لوگوں کو سخت قسم کی دھمکیاں دی جارہی ہیں کہ اگر کسی نے گواہی دی تو جو ملازم ہے اسی کی ملازمت جائے گی، اور اگر کوئی ملازم نہیں ہے تو اس کے خلاف منشیات یا کوئی اور جھوٹی کیس بنا کر گرفتار کیا جائے گا، اس ڈر کی وجہ سے کوئی سامنے نہیں آرہا ہے، حالانکہ ایس ایچ او سوراب گھر آکر معائنہ بھی کیا ہے اور گولیوں کے خول ساتھ بھی لے گئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جب تک یہ لوگ معطل نہیں ہونگے اس وقت تک کوئی نہیں آہیگا، ایک بلوچ کے گھر کی چادر و چار دیواری کی تقدس کی پامالی ہے، اگر اس کیس پے بلوچستان میں عمل در آمد نہیں ہوا تو یہ کیس پاکستان سے باہر بھی جاسکتا ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کیمپ میں وفود سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے تمام ادارے خواہ وہ میڈیا ہو یا عدلیہ یا پارلیمنٹ سب کے سب پاکستانی فوج، خفیہ اداروں کے حواری ہیں جنہوں نے بلوچ کو مکمل ایک دشمن قوم کی حیثیت سے ظاہر کیا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی ادارے اپنے جرائم چھپانے کے لیے مختلف قسم کے حیلے سازی کا سہارہ لے رہی ہے اور حقیقت یہ ہے کہ بلوچ گمشدہ نہیں بلکہ پاکستانی فورسز کے حراست میں ہیں۔