بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4030 دن مکمل ہوگئے۔ کوئٹہ سے بی این پی کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری لقمان کاکڑ، بی این ڈیرہ غازی خان سے فیض اللہ بزدار، رحمت اللہ لغاری، کریم نواز بلوچ، حضور بخش، نورالدین نے کیمپ کا دورہ کیا۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فوجی آپریشن کے نام پر پاکستانی فورسز نے زیر حراست لاپتہ بلوچ افراد کو شہید کرنے کا گھناونا عمل تیز کردیا ہے۔ اب بلوچ پاکستانی میڈیا کے لیے دہشت گرد اس لیے قرار پائے کہ وہ اپنے حقوق، اپنی بقاء کے لیے آفاقی و دنیاوی قوانین کے مطابق پرامن جدوجہد کررہی ہے۔
انہوں نے کہا سیاسی حوالے سے جہد پر پابندی، قید و بند، اغواء نما گرفتاری پھر مسخ لاشیں بلوچ کا مقدر بن چکے ہیں۔ پاکستانی فورسز کی ان غیر انسانی بربریت کے مقابلے بلوچ قوم کی جدوجہد فطری عمل ہے۔
ماما قدیر نے کہا کہ بلوچستان حکومت ک اعلیٰ عہدیدار نے اپنی کرسی بچاو کی چکر میں ایک بیان جاری کی کہ چار بلوچ فرزند جھڑپ میں مارے گئے ہیں ان کو دہشت قرار دیا گیا جوکہ عوام کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے برابر ہے کیونکہ مذکورہ افراد کو پہلے ہی لاپتہ کیا جاچکا تھا۔ لاپتہ بلوچ افراد کو جعلی مقابلوں میں شہید کیا جارہا ہے اور یہ وہی سلسلہ ہے جو گذشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فورسز اور اس کے لے پالک کٹھ پتلی حکومت بشمول اس کے حکومتی ہمنواوں کو پتہ ہے کہ عوام کس طرح بے وقوف بنایا جاسکتا ہے اور انہوں نے سالوں سے پاکستانی فوج کے عقوبت خانوں میں غیر انسانی تشدد کے شکار افراد کو شہید کرکے میڈیا میں دہشت گرد کہہ کر پیش کیا ہے۔