بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4040 دن مکمل ہوگئے۔ بی ایس او پچار خاران کے یونٹ سیکرٹری بیبرگ بلوچ، محمد عمران بلوچ، بلال مینگل اور دیگر نے کیمپ کا دورہ کرکے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
اس موقع پر وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جبری طور پر بلوچ لاپتہ افراد کی گولیوں سے چلنی لاشیں برآمد ہونے کا تسلسل آج بھی جاری ہے۔ پچھلے ایک ماہ کے دوران راجن پور اور سندھ سے بلوچ لاپتہ افراد کی چھ لاشیں مل چکی ہے جو حقیقی حالات کو بیان کرتی ہے۔
انہوں نے کہ مذکورہ افراد کی شناخت تو ہوگئی لیکن ان کے علاوہ بلوچستان کے مختلف علاقوں سے روزانہ کی بنیادوں پر لاشیں ملتی ہے جن کی شناخت ممکن نہیں ہوپاتی اور حکام انہیں لاوارث کرار دیکر دفنا دیتے ہیں۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ پاکستانی فوج اور خفیہ ادارے اپنے تشکیل کردہ ڈیتھ اسکواڈ کی مدد سے بلوچستان بھر میں ظلم کی داستانیں رقم کررہی ہے۔ بلوچستان سے باہر ہجرت کرکے مہاجرت کی زندگی گزارنے والے بلوچ بھی محفوظ نہیں ہے۔ بلوچوں کو لاپتہ کرکے ان کی لاشیں پھینک دی جاتی ہے یا اپنی گناہوں پر پردہ ڈالنے کیلئے فورسز انہیں جھڑپ کا نام دیتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ آج بھی پنجگور کے علاقے گچک سے فوجی آپریشن کی خبریں موصول ہوئی ہے جہاں گن شپ ہیلی کاپٹروں نے کئی گھنٹوں تک پورے علاقے میں شیلنگ کرتے ہوئے عام آبادیوں کو نشانہ بنایا۔
انہوں نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان کے ان بدتر حالات پر عالمی اور علاقائی انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی مجرمانہ ہے۔ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں پر خاموشی ریاست کو قوت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔