بلوچستان اسے کیوں بھول رہا ہے؟ – محمد خان داؤد

146

بلوچستان اسے کیوں بھول رہا ہے؟

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

آج کراچی گھٹنوں گھٹنوں ڈوبا ہوا ہے۔ پارکوں کے سبز گھاس پر مٹیلا پانی موجود ہے۔ جس سے گھاس ڈھکی ہوئی ہے۔ آسماں بادلوں سے بھرا ہوا ہے۔ وہ بہت برسے ہیں۔ وہ ایسے برسے ہیں جیسے گاؤں گوٹھوں میں مقتولوں کی مائیں اور محبوبائیں برستی ہیں۔ جب انہیں معلوم پڑتا ہے کہ ان کا پیارا مصروف شہر میں درندگی کا شکار ہوا ہے۔ اور وہ مائیں اور محبوبائیں جب برستی ہیں، جب ان مقتولین کی گھائل لاشیں ان گاؤں گوٹھوں میں لائی جا تی ہیں جن گاؤں گوٹھوں سے مقتولین اپنا سفر کا مختصر سا ساماں لیے شہر کو جاتی آخری گاڑی میں سوار ہو تے ہیں اور گاڑی اسٹارٹ ہوتے ہی وہ اپنے چھوٹے بھائیوں کو رومن اردو میں میسج کرتے ہیں بھلے ان کی زباں کوئی بھی ہو، چاہے وہ بلوچی بولتے ہوں یا سرائیکی، سندھی پر موبائل فون کے ذرئعے وہ ایک دوسرے سے رومن اردو میں ہی مخاطب ہو تے ہیں کہ
،،GADI NKL CHUKI HAI YAR BS AMMA KA KHYAL RKHNA,,
وہ بھی اس رات گھر سے آخری گاڑی میں سوار ہوا ہوگا اور گاڑی نکلتے وقت اس نے بھی اپنے بھائی یا بھانجے کو ایسا ہی مسیج کیا ہوگا
,,YAR AMMA KA KHAYL RKHNA,,
بہت ہی سادا
بہت ہی مختصر!
اور اس کے جانے کے بعد ماں بھی دل سنبھالے بیٹھ گئی ہوگی
ماں کا دل سینے میں جبکہ آنکھیں آکاش پر اس خدا سے مخاطب ہوتی ہونگی اوراس ماں کی آنکھیں خدا سے یہی دعا کرتی ہونگی کہ
ِِ ِِ،،اس کا خیال رکھنا،،
پھر نہیں معلوم کس سے بھول ہوگئی
ماں سے؟
یا خدا سے؟
یا دونوں سے؟
یا ماں کی آنکھ لگ گئی
یا خدا مصروف رہا ہوگا؟
اور پھر وہ سانحہ ہوگیا جس سانحہ کو نہیں ہونا چاہیے تھا

اب جب وہ سانحہ ہوگیا ہے، جب سے دل بہت ہی زیادہ ملال میں ہے
اور ماں کی آنکھیں اشک بار

ماں تو ماں ہو تی ہے، جب ماں کسی سانحے سے گزرتی ہے تو بہت ہی زیادہ مشکل ہوتی ہے کہ ماں کا دل ویسے دھڑک پائے جیسے وہ سانحے سے پہلے دھڑک رہا ہوتا ہے۔ ماں کو ویسی نیند آ پائے جیسے سانحے سے پہلی آتی تھی۔ ماں ویسے جی مائے جیسے سانحے سے پہلے جی رہی تھی۔ ماں کی دید ویسے دیکھ پائے جیسے سانحے سے پہلے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ ماں کی آنکھیں ویسے ہی پر سکون اور روشن رہیں جیسے سانحے سے پہلے روشن اور پرسکون تھی۔نہیں پھر تو ان آنکھوں میں وہ ساون اتر آتا ہے جس ساون کو دیکھ کر لطیف نے بادلوں سے یہ شکایت کی تھی کہ
،،تم بہت برستے ہو
پر برستے برستے تھم بھی جاتے ہو
کیا تم نے ان آنکھوں کو دیکھا ہے
جو اک بار یار کے لیے روتی ہیں
تو پھر انہیں مولا بھی نہیں روک سکتا
تو پھر تم کیوں برستے ہو اے بادلو؟!!،،
پر ماؤں سے بیٹے نہیں بھولتے

اور وہ بیٹے جو گھائل ہوئے ہوں! جو زخمی ہوکر گرے ہوں۔ جو گرتے گرتے اپنی زباں سے آخری بار،،اماں،، کہہ کر گرے ہوں، جن کے وجودوں میں بارود گھسا ہو۔ جن کے نفیس جسم سے گولیاں آر پار ہوئی ہوں، جن ماؤں کو اپنے مارے ہوئے بیٹوں کے ساتھ پوسٹ مارٹم جیسی اذیت سے گذرنا پڑا ہو۔

جن ماؤں کے بیٹوں کو شہر میں گولی لگی ہو اور بہت دور گاؤں میں ماں کی نیند ماری گئی ہو۔ جن بیٹوں کو جو گولی لگی ہو وہ گولی وہاں سے آر پار ہوکر ماؤں کے جسموں میں پیوست ہوگئی ہو
اور ان ماؤں کی دلوں کی حالت ہو بہو ایسی ہو کہ
،،کملی کر کے چھڈ گئے او
پئی کھک گلیاں تاں رولاں!،،
وہ مائیں روئیں تو کس کے سامنے اور انہیں منائے تو کون؟
جب وہ مائیں ماتم یار میں ہوتی ہیں تو ان کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ
،،نہ کوئی ساتھی، نہ کوئی سانجھی، نہ کوئی وکیل ہے
درداں دی ماری دلڑی علیل اے!،،
وہ مائیں علیل دل کے ساتھ جیتی ہیں، پر انہیں اپنے مقتول بیٹے نہیں بھولتے!!
جن بیٹوں کے بعد مائیں یتیم ہوئی ہوں، جن بیٹوں کی تعزیت بوڑھی ماؤں نے وصول کی ہو
ایسے ماؤں سے تو ہرگز ہرگز وہ اپنے مقتول بیٹے نہیں بھولتے اور وہ سوتے میں، جاگتے میں
گاہے، بگاہے ان مقتول بیٹوں کو یاد کرہی لیتی ہیں اور جب کوئی جواب نہیں ملتا اور جب ایسی صدا نہیں آتی
،،جی اماں!،،
تو وہ مائیں بہت روتی ہیں!
بہت روتی ہیں!
بہت روتی ہیں!
ایسی ہی اک ماں اب بھی اپنے مقتول بیٹے کو صدا دے رہی ہے
،،ارشاد
ارشاد۔۔۔۔،،
جب،،جی اماں،،کی صدا نہیں آتی تو پھر وہ ماں بہت روتی ہے
کاش وہ مائیں ادب سے شناسا ہوتیں
کاش وہ مائیں کتابیں پڑھا کرتیں

کاش وہ مائیں مرشد فیض سے واقف ہوتیں تو جب اپنے مقتول بیٹوں کا بھولے میں صدا دیتیں اور جواب میں کوئی جواب نہ ملتا اور وہ انہیں بہانا بنا کر بہت روتیں اور کوئی انہیں روکتا، ٹوکتا تو وہ مائیں ان روکنے والوں کو مرشد فیض کے الفاظوں میں جواب دیتی کہ
،،اب نہ دید ہے، نہ سخن
اب نہ حروف ہیں، نہ پیام
کوئی بھی حیلہ تسکیں نہیں
اور آس بہت ہے
امید یار، نظر کا مزاج، درد کا رنگ
تم آج کچھ بھی نہ پوچھو
کہ دل اداس بہت ہے،،

اس قلم کے شہید کو سب بھول رہے ہیں یا بھولنے کی اداکاری کررہے ہیں؟
اسے پریس کلب کے کرتا دھرتا بھول رہے ہیں
اسے صحافتی تنظیموں کے لیڈران بھول رہے ہیں
اسے گڑنگ صحافی بھول رہے ہیں
اسے مہان کالمسٹ بھول رہے ہیں
اسے جادوئی نثر لکھنے والے ادیب بھول رہے ہیں
اسے یلو صحافت سے لیکر عوامی انقلابی صحافت کے رکھ والے بھول رہے ہیں
اسے ڈمی اخباروں کے ایڈیٹروں سے لیکر بہت زیادہ سرکیولشن والے اخبارات کے بہت پڑھے لکھے ایڈیٹر بھول رہے ہیں۔
اسے حال احوال بھول رہا ہے۔
اب اس کے نام پر کہیں کوئی موم بتی نہیں جلی اور کسی پریس کلب میں کوئی مذاکرہ نہیں ہوا
پر افسوس یہ ہے کہ اسے بلوچستان بھی بھول رہا ہے
اور بلوچستان کیا ہے؟
میں اور تم
ہاں اب اسے میں اور تم بھی بھول بیٹھے ہیں.
پر اسے وہ ماں کبھی نہیں بھولے گی
جس ماں نے اسے محبت کی
جس ماں کے دل کو اب درد بہت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔