اذیت خانہ – زبرین بلوچ

772

اذیت خانہ

زبرین بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک ماں جس کے لئے بیٹی ہمیشہ سب سے بڑی پریشانی ہوتی ہے، دن بدن بیٹی کی عمر بڑھتی جاتی ہے، ماں کی پریشانیوں میں اضافہ ہوتا جاتا ہے، بیٹی کی شادی کرنی ہے، بیٹی کے لئے اچھے گھر کی تلاش رہتی ہے، اچھے خاندان کی طلب رہتی ہے۔ مگر دنیا میں ایک خطہ ایسا بھی ہے۔ ایک سرزمین ایسا بھی ہے، جو بظاہر تو بنجر ہے مگر اس کے ہر ایک پتھر کے نیچے سونا ہے۔ ایک ایس دھرتی جس کی مٹی سے بنے ماں، بیٹی پیدا ہونے پر نہیں بلکہ بیٹے کی پیدائش پہ ماتم کرتے ہیں۔ بیٹے کی پیدائش پہ گھر میں سوگ منائی جاتی ہے۔ یہاں بیٹا پیدا کرنے کامطلب ایک ماں اپنے لئے خود درد، عزاب چُن لیتا ہے۔ یہاں پہ بیٹے کی پیدائش کے بعد اس کو گلی کے کالے جنوں کے نظر بد سے بچانا ہے۔ جب بیٹا سات سال کا ہوتا ہے تو بیٹے کو اسکول روانہ کرنے سے اس لئے ڈر لگتا ہے کہ سکول دس دس کلو میٹر کے فاصلے پہ ہوتے ہیں جہاں راستے میں ویرانا ہوتا ہے کہیں کوئی جانور بیٹے کو نقصان نہیں دے۔

بیٹے کو مدرسہ روانہ کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ وہاں بیٹھے درندہ صفت انسان مختلف طریقوں سے بیٹے کو جسمانی ، ذہنی اذیت میں مبتلا کرتے ہیں بلکہ تشدد کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ بیٹے کی عمر جیسے ہی بڑھ جاتا ہے تو غربت کی وجہ سے ماں اس کو کسی ورکشاپ یا کوئی دکان پہ کام کے لئے اس لئے روانہ نہیں کرتی کہ وہاں پہ لوگ میرے بیٹے کو گالی دینگے۔ ماں اس لئے بھی پریشان ہوتی ہے کہ کہی میرا بیٹا دوستوں کے ساتھ نہیں جائے کیونکہ یہاں پہ دوست بھی دھوکہ دہی میں رہتے ہیں۔ بیٹے کا گھر سے باہر جانا بھی ایک عزاب ہے، کہ باہر درندے اور غنڈے گھومتے ہیں ۔ کسی سفر پہ بیٹے کو روانہ کرنا بھی باعث پریشانی ہے ایک ماں کے لئے کہ بلوچستان قاتل شاہراؤں کی آماجگاہ ہے۔ بیٹے کو اسکول روانہ کرنا بھی ایک غم ہے کہ ہر اسکول میں ایک ریٹائیر ماسٹر ملتا ہے۔ بیٹے کا کلاس فیلوز کے ساتھ جانا بھی ایک ماں کے لئے عزاب ہے کہ آج کل کے نوجوان نشے کے عادی بن رہے ہیں۔

سب سے بڑھ کر ماں بیٹے کو کتابیں اس لئے پڑھنے نہیں دیتی کہ بیٹا اپنی حقوق سے واقفیت حاصل کرلیتا ہے اور یہیں سے ماں کے لئے درد سر بن جاتا ہے۔ بیٹا اپنے حقوق سے واقفیت حاصل کرتا ہے تو طلبہ سیاست میں چلا جاتا ہے تاکہ اپنی محرمیوں کے لئے جدوجہد کرسکے۔ ماں کے لئے قیامت اس وقت برپا ہوجاتی ہے کہ اس کا بیٹا اپنی آئینی حقوق کی باتیں کرتا ہے اور آئینی حقوق مانگتا ہے تو اس کو لاپتہ کرکے نامعلوم مقام پہ رکھا جاتا ہے۔ یہی وہ درد ہے جو ایک ماں کی نیند حرام کردیتی ہے۔ سالوں سے لاپتہ بیٹا نہیں معلوم کہاں ہے زندہ ہے یا چل بسا ہے۔ ایک ماں عید کے دن بھی روڈ پہ بیٹھ کر اسی انتظار میں ہے کہ شاید بیٹا واپس آئے۔ ایک ماں کہہ رہی تھی کہ “ہم ہر عید کی رات اپنے گھر کا دروازہ اس لیے بند نہیں کرتے کہ شاید رات کو میرا بیٹا آئیگا مگر صبح اٹھتے ہیں تو وہ ہمیں کہیں نہیں ملتا” یہ سرزمین ہر ایک لمحہ ماؤں کے لئے قیامت برپا کرتی ہے۔ بیٹے کا شہر جانا اس لئے قیامت ہے کہ کسی بھی وقت شہروں میں دھماکے ہوتے ہیں۔

ایک وقت تھا کہ خضدار میں صبح لوگ نکلتے وقت ماں سے رخصت اس لئے کرتے تھے کہ شاید شام کو واپس نہیں آئینگے۔ یہاں بیٹا پیدا کرنا ایک ماں کی خود اپنے لئے قیامت کا انتخاب کرنا ہے۔

ماں اس لئے پریشان ہے کہ گلیوں میں درندے گھومتے ہیں، جو ماؤں کے بیٹوں کو جنہیں اتنی محنت اور محبت کے ساتھ بڑے کرتے ہیں کو زبردستی اٹھا کر انہیں ظلم کا نشانہ بنا کر قتل کردیتے ہیں۔ یہاں قانون کی بات کرنے سے بھی ڈر لگتا ہے کہ قانون ہی پھر ساتھ نہیں دیتی۔ یہاں پہ فیصلے قاضیوں کے بجائے غازی کرتے ہیں تو یہیں سے ایسے معاشرے کا سوچ لگایا جاسکتا ہے کہ کس قدر ذہنی قدامت پرستی میں مبتلا ہے۔ اس سرزمین پہ ایک وقت میں دو قانون نافذالعمل ہیں ایک ان کے لئے جو اپنے آپ خدا ہیں اور ایک ان کے لئے جو ان کی خدائی ماننے سے انکاری ہیں۔ اس زمین کے ہر ایک پتھر کے نیچے سونا ہے اور ہر ایک پتھر ماؤں کا درد بیان کررہی ہے، جسے سمجھنے کے لئے ان ماؤں جیسا دل اور اس باپ جیسا جگر رکھنا ہوگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔