اب ہم بولنے پرمجبورہیں – شفیق الرحمن ساسولی

453

اب ہم بولنے پرمجبورہیں

شفیق الرحمن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ


“تمہیں فکرِعمر عزیز ہے
تو نہ حاکمو کو خفا کرو

جو ہو ڈاکہ زنی اگر
تو کوتوال کا نام نہ لو

میرے حاکموں کو خبر کرو
نہیں ظالموں کا رفیق میں”


ویسے تو حیات کا مطلب زند و زندگی، حیات کے جسم کو حیات رہنے نہیں دیاگیا، مگر حیات کا نام، حیات کا روح ہمیشہ کیلئے حیات رہیگا۔ 13 اگست 2020 کو جس حیات سے اس کی حیات چھینی گئی شاید مرزا بلوچ کو اس کے فرزند حیات بلوچ کی جسم شکلِ حیات میں نہ ملے لیکن حیات بلوچ کی شہادت بہت سے حیات لوگوں کو حقیقت سمجھانے کیلئے کافی ہونی چاہیئے۔ یہ ان گنت ماورائے عدالت قتلوں میں سے زخموں پہ نمک چھڑکنے والی ایک اور قتل ہے۔

حیات بلوچ کون تھے اور ان کی مجرمانہ بیک گراونڈ کیا تھی؟ آئیے! کہیں سے مستند اقتباس آپ سے شیئرکرتاہوں؟

حیات بلوچ ضلع تربت کے رہائشی تھے۔ وہ چار بہن بھائی تھے، جن میں حیات بلوچ کا نمبر دوسرا تھا۔ وہ کراچی میں شعبہ فزیالوجی میں بی ایس کے فائنل ایئر کے طالب علم تھے۔ کورونا کی وجہ سے یونیورسٹی بند تھی، جس وجہ سے وہ آبائی علاقے تربت میں مقیم تھے۔ حیات بلوچ کے والد معزر محمد علاقے کی جانی پہچانی سماجی شخصیت ہیں اور کھجور کے کاروبار سے منسلک ہیں۔

‘کراچی یونیورسٹی میں حیات بلوچ کے چار سال سے ہم جماعت اور ان کے بہترین دوست عامر احسن اپنے غریب اور خوددار دوست حیات بلوچ کے بارے میں بتاتے ہیں کہ حیات کا تعلق بہت ہی غریب خاندان سے تھا۔ ان کے مطابق وہ اپنی پوری برداری میں پہلا نوجوان تھا جس نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا تھا اور ان ہی کی ہمت افزائی کے بعد ان کے چھوٹے بھائی اور دیگر نے بعد میں تعلیم حاصل کی تھی۔

انھوں نے کہا کہ ‘میں کیا بتاؤں وہ کتنا قابل اور درد دل رکھنے والا تھا۔ وہ مجھ سے اپنے دل کی بات کرتا تھا۔‘

عامر احسن کہتاہیکہ وہ مجھ سے اکثر کہتا تھا کہ میں وہ وقت دیکھنا چاہتا ہوں جب میں کسی قابل بن کر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور پھر اپنی برداری کے لوگوں کی خدمت کرسکوں، اپنوں کی تقدیر کو بدل سکوں‘

عامر احسن بتاتے ہیں کہ ‘کہتا تھا کہ ماسٹرز کے بعد میرے پاس صرف ایک ہی آپشن ہے اور وہ ہے سی ایس ایس کا جس کے لیے وہ ابھی سے دن رات تیاری کر رہا تھا۔ اس کے تمام سمیسٹرز میں گریڈ بھی اچھے تھے۔’

عامر احسن کے مطابق حیات بلوچ انتہائی مشکل حالات میں تعلیم کو جاری رکھے ہوئے تھے۔

’اب جب کورونا کے باعث یونیورسٹی بند ہوئی تھی تو اپنے علاقے میں جا کر ہم لوگوں کی طرح ریلیکس اور آن لائن پڑھائی نہیں کررہا تھا بلکہ اس نے والد کے ساتھ مل کر کھجور کے باغ کا ٹھیکہ لے لیا تھا۔ جہاں پر وہ دن رات کام کرتا تھا۔

‘اس نے مجھ سے کہا تھا کہ اس سے مجھے اتنے پیسے مل جائیں گے جس سے میرا آنے والے دنوں میں یونیورسٹی کا خرچہ چل جائے گا۔ اس کے علاوہ وہ جب بھی اپنے علاقے جاتا تھا وہاں پر محنت مزدوری کرتا تھا۔’

عامر احسن کے مطابق اکثر اوقات کچھ دوست اور یونیورسٹی کے ایک دو استاد ان کی مدد کرتے تھے اور حیات بلوچ کو نوٹس، کتابیں وغیرہ دلاتے تھے۔
’اس بات پر وہ بہت شرم محسوس کرتا تھا، اتنی زیادہ کہ میں بتا نہیں سکتا۔

‘وہ مجھ سے اکثر کہتا تھا کہ میں وہ وقت دیکھنا چاہتا ہوں جب میں کسی قابل بن کر اپنے ماں باپ، بہن بھائیوں اور پھر اپنی برداری کے لوگوں کی خدمت کرسکوں، اپنوں کی تقدیر کو بدل سکوں۔

‘افسوس کہ جب کچھ تھوڑا وقت باقی رہ گیا تو وہ گولی کا نشانہ بن گیا۔’

حیات بلوچ کی کلاس فیلو مہوش اشفاق بتاتی ہیں کہ ’وہ میرے ساتھ سوشل ورک کرتا تھا۔ کلاس میں ہر وقت وہ سب سے پہلے بات کرتا تھا۔‘

مہوش کہتی ہیکہ اس سے میں اکثر کہا کرتی تھی کہ تھوڑا بولو ہمیں بھی بات کرنے کا موقع دو مگر وہ چپ ہی نہیں ہوتا تھا۔ افسوس کہ اب ہم جب کلاس میں جائیں گے تو وہ نہیں ہوگا کہ میں اس سے کہہ سکوں کہ چپ کرو مجھے بھی بولنے کا موقع دو۔’

ان کے ایک دوست محسن علی بتاتے ہیں کہ وہ زندگی سے بھرپور طالب علم تھے جو نہ صرف اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے تھے بلکہ وہ رفاہی اور فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔‘

انھوں نے کہا کہ یہ ایک نا قابل تلافی نقصان ہے۔ نہ صرف حیات بلوچ کے خاندان اور ان کے علاقے کے لیے بلکہ ’ہم سب دوستوں کے لیے بھی۔‘

’ہمہ وقت اپنے علاقے کے لوگوں کی مدد کو تیار رہتے تھے‘

بلوچ سٹوڈنٹس ایجوکیشن آرگنائزیشن کراچی یونیورسٹی کے چیئرمین محسن علی کے مطابق حیات بلوچ بلوچ طلبا کی رفاعی تنظیم کی کابینہ میں شامل تھے۔

انھوں نے بتایا کہ وہ زندگی سے بھرپور طالب علم تھے جو نہ صرف اپنی پڑھائی پر بھرپور توجہ دیتے تھے بلکہ وہ رفاعی اور فلاحی کاموں میں بھی بھرپور حصہ لیتے تھے۔

محسن علی کے مطابق خود کشی کے کچھ واقعات پر وہ بہت پریشان ہو گئے تھے۔

‘وہ میرے پاس آئے اور مجھ سے کہا کہ ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں طالب علم بہت پریشان رہتے ہیں کیوں نہ ان طالب علموں کے ساتھ خودکشی پر ایک سیشن رکھا جائے۔ جس پر ہم نے ان کے ڈیپارٹمنٹ کے طالب علموں سے بات کی۔

‘اس موقع پر ایک بھرپور سیشن ہوا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ حیات بلوچ کے کئی ساتھی طالب علموں نے بعد میں ہم سے کہا کہ اگر یہ سیشن نہ ہوتا تو نہ جانے ہم کیا کر بیٹھتے۔’

محسن علی کا کہنا تھا کہ بلوچستان سے داخلے وغیرہ کے لیے کراچی آنے والے طالب علموں کو مدد کی بہت زیادہ ضرورت ہوتی ہے اور حیات بلوچ آگے بڑھ کر ان کی مدد کرتے تھے۔

محسن علی کا کہنا تھا کہ حیات بلوچ کے پاس ہمہ وقت طالب علموں اور بلوچستان سے آنے والے لوگوں کا میلہ لگا رہتا تھا۔ ’وہ سب کی مدد کرتے اور خوشی محسوس کرتے تھے۔‘

’نومبر میں داخلہ سیشن اور امتحانات ہوتے ہیں۔ اب جب سب طالب علم اپنے پرچوں کی تیاری میں مصروف ہوتے تو یہ اس وقت بھی نئے آنے والے طالب علموں کی مدد کر رہے ہوتے، کسی کو فارم بھرنے میں مدد دیتے تو کسی کے رات ٹھرنے کا انتظام کرتے تھے

ڈاکٹر یٰسین دستی کہتے ہیں کہ اب بلوچستان سے غریب مریض آئیں گے تو ان کی مدد کرنے والے تو بہت ہوں گے مگر ان کے لیے حیات بلوچ جیسی بھاگ دوڑ کرنے والا کوئی نہیں ہو گا‘

ڈاکٹر یٰسین دستی شعبہ عمرانیات میں استاد کے فرائض ادا کر رہے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان سے تعلق کی وجہ سے ان کا حیات بلوچ سے بہت قریبی رابطہ رہا ہے۔

‘بلوچستان سے اکثر اوقات غریب مریض کراچی کے ہسپتالوں میں علاج معالجے کے لیے آتے رہتے تھے۔

‘اس کو جب بھی کسی مریض کی اطلاع ملتی تو یہ اس کی مدد کو دوڑ پڑتے تھے۔ ان کو بلڈ وغیرہ کی ضرورت ہوتی تو یونیورسٹی میں مہم چلاتے تھے۔

‘ہسپتال جاتے، عیادت کرتے، ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
یہ تھے حیات بلوچ اور اس کے مجرمانہ سوچ و کردار جس کی وجہ سے ان حیات ان کی حیات چھین لی گئی۔

“حیات کو کس نے، کس بناء کو جواز بناکر مارا؟ بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق اہلخانہ کا مؤقف ملاحظہ فرمائیے:”

حیات بلوچ کے بھائی مراد محمد نے بی بی سی سے بات کرکے واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ان کے والد کھجور کے ٹھیکیدار ہیں اور حیات بلوچ کو چونکہ یونیورسٹی سے چھٹیاں تھیں اس لیے وہ اپنے والد کا ہاتھ بٹا رہے تھے۔

’جمعرات کو تقریباً 11، ساڑھے 11 بجے کے قریب جس باغیچے میں حیات کام کر رہا تھا اس کے قریب سڑک پر سے فرنٹیئر کور کی گاڑی گزر رہی تھی جب اچانک دھماکہ ہوا۔‘

انھوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد فرنٹیئر کور کے اہلکار باغیچے میں گھس آئے اور انھوں نے حیات بلوچ کے والد کے بقول ’حیات بلوچ کو تھپڑ مارے۔‘

وہ مزید بتاتے ہیں کہ ’اس کے ہاتھ، پاؤں باندھے گئے اور روڈ پر لا کر آٹھ گولیاں ماری گئیں جس سے وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔‘

مراد محمد کے مطابق والد نے بتایا کہ اس موقع پر انھوں نے فرنٹیئر کور کے اہلکار سے منتیں کیں کہ ان کے بیٹے کو چھوڑ دیں کہ ‘وہ صرف باغیچے میں کام کر رہا ہے مگر انھوں نے ایک نہ سنی اور انتہائی بے دردی کے ساتھ پہلے تشدد کیا گیا اور پھر گولیاں مارے۔

اب سوال یہ ہیکہ اس باریش سفید پوش اہلکار نے حیات کو قتل کیا؟
یا ایک مائنڈ سیٹ نے؟
فورسز کا عوام سے فرعونی رویے کو مدنظررکھ کر جواب دیاجائے تو جان کی امان پاکر اس گہرے سوال کا بلاتفصیل و تشریح مختصر جواب عرض ہیکہ ” یقینًا ایک مائنڈ سیٹ ہی لگتا ہے”
حیران کن بات یہ ہے کہ آخر یہ ہمارے محافظ ہیں یا قاتل؟

فورسز کو عوام کی حفاظت کیلئے وردی و اسلحہ دی جاتی ہے یا شہریوں کو ڈرانے اور مارنے کیلئے؟ عوام ان کو دیکھ کر رکے یا بھاگ کر جان کی امان پائے؟ عام شہری اور دہشت گرد میں ہمارے محافظ کب فرق کو سمجھیں گے؟ آخر ہمیں اپنے ہی فورسز اِتنا ہراساں کیوں کررہے ہیں؟ یہ سارے سوالات اس لئے جنم لیتے ہیں کیونکہ اسی طرح کے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔

معذرت کےساتھ اگر محافظوں کو وردی کے ساتھ حفاظت کے اصولوں اور قانون کے ا۔ ب۔ پ بھی سکھائی جاتی تو آج ہم ایسے سانحات نہیں دیکھتے مگر نہیں یہاں تو ان کو اتنی چھوٹ ہیکہ عام نہتے شہریوں پر بھی غصہ نکالتے ہیں۔

اب تو ہم سب بولنے پر مجبور ہیں کہ ہمارے حیات کو محافظوں نے مار ڈالا۔ جب اس طرح کہیں گے، ہم پر تو غصہ نہیں نکالاجائے گا نہ؟ سناہے محافظ تو اوتھ لیتا ہے وطن کے لئے اور ایمانداری سے کام کرنے کی قسمیں کھاتا ہے کیا وہ ساری قسمیں جھوٹی ہوتی ہیں ؟ کیا اپنی انا اور ضد یا اپنا غصہ لوگوں پر نکالنے کی قسمیں کھائی جاتی ہیں؟

ایسا تو کسی مقبوضہ یا مفتوحہ علاقے میں نظر نہیں آتا جو بلوچستان میں پچھلے کئی سالوں میں ماورائے عدالت قتل کی داستانیں ہیں اور ان داستانوں میں کچھ لاشیں چیخ چیخ کر پُکار رہی ہیں کہ

” وہ مجرم شاہی غنڈے تھے
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا”۔

اب وقت آگیا ہے مقتدر قوتوں کو سوچنا ہو گا کہ شروع سے آج تک بلوچستان ظلم کا رونا کیوں رو رہا ہے ؟

اب اسکا حل یہاں کےحیات کو گولی مارنا نہیں ہے۔ مُستقل حل کیلئے برابری کے حقوق دئیے جائیں اور بالخصوص بلوچ کو بلوچ سمجھاجائے اور اسی طرح ٹریٹ کیاجائے۔

اب سمجھناہوگا بلوچ الگ کیوں سوچتا ہے ؟ وہ اس لئے کہ باشعور ہے سیاسی شعور رکھتا ہے، اسی لئے بلوچ کے متعلق ہر منفی پروپیگنڈے کو منہ کی کھانا پڑتی ہے اور بلوچ عزت اور بلوچی اقدار کے ساتھ رہناپسند کرتاہے۔

جتنی محنت یہاں کے عوام کو تقسیم کرو اور حکمرانی کرو والی پالیسی کے مطابق کیاجارہاہے کاش اتنا محنت یہاں کے باشندوں کی مزاج کو سمجھنے کیلئے کیاہوتا آج وہ حیات اپنے باغ کے سامنے کجھور ہاتھ میں لئے سیلوٹ مارکر تحفتاً کجھور پیش کرتا۔

خیر، ناامیدی کفر ہے، اللہ پاک ہمیں بھی ان لوگوں کو شُکریہ کہنے کا موقع دیں جو صرف حیات بلوچ نہیں بلکہ تمام ماورائے عدالت مارے جانے والے لوگوں کی انکوائری کروائیں گے اور بلوچستان کئی حیات بھائیوں اور بیٹوں کو منظرعام پر لائیں گے۔ ۔اگر نہیں بھی تو شعور کی آواز نہ دبی ہے نہ دب سکے گی۔

کسی پروٹیسٹ میں حیات کے لئے لکھے گئے اس سوال کے ساتھ اجازت چاہتا ہوں
کہ “کیا حادثاتی موت ہاتھ باندھ کر اور 8 گولیاں مارکر کی جاتی ہے؟”


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔