بہت دیر ہوگئی کہور صاحب – شہیک بلوچ

601

بہت دیر ہوگئی کہور صاحب

تحریر: شہیک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک نئی پارٹی کی بازگشت سنائی دی جارہی ہے۔ کہور خان صاحب اور امداد بلوچ سرگرم عمل ہیں جبکہ تھکاوٹ کا شکار حمل حیدر بھی متنازعہ باتیں کرتے نظر آرہے ہیں۔ کہور خان کا انٹرویو ہو یا ڈاکٹر امداد کا دمبورہ والی تمہید یا پھر حمل حیدر کی صورت میں بلوچ قومی تحریک کے اساس پر حملہ اس ساری صورتحال میں ان کرداروں کے فکری بانجھ پن واضح نظر آتی ہے۔

کہور خان صاحب کا انٹرویو سنتے ہوئے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ ابھی تک 80 کی دہائی کے رومانس میں مبتلا ہیں۔ وہ اب بھی سمجھتے کے بلوچ نوجوان کو دھوکا دینا آسان ہے لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ ان کے بیوروکریسی کے آرام دہ زندگی کے برعکس بلوچ نوجوان پہاڑ جیسے آزمائشوں سے گذر چکا ہے۔

ان کی ساری باتوں میں جس ہنر مندی کیساتھ نوآبادیاتی پہلو کو نظرانداز کیا گیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک مہرے کے طور پر سامنے لائے جارہے ہیں اور جس نظریاتی سیاست کا چربہ وہ بیان کررہے ہیں اس کی حقیقت کھوکلاہٹ سے بھرپور ہے۔ کوئی نوآبادیاتی نظام کو نظر انداز کرکے کس نظریاتی سیاست کی بات کرتا ہے؟

ایک مرتبہ پھر یہ بات دہراونگا کہ آپ ایک تاریخی پس منظر کو ٹھکرا کر محض چند خوشنما باتوں سے دھوکا دہی کی کوشش ضرور کرسکتے ہیں لیکن آج کا نوجوان ان کھوکھلی باتوں سے متاثر نہیں ہوتا۔

کہور صاحب کو یہ غلط فہمی ہے کہ بلوچ نوجوانوں نےانہیں اپنا رہنما تسلیم کیا تھا یا پھر ان سے امیدیں باندھی تھیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بلوچ نوجوانوں کی امیدیں بی ایس او کے ان کرداروں سے رہی ہیں جنہوں نے عملاً کوئی کردار ادا کیا ہے، کل بھی نوجوانوں کو اگر امید تھی تو وہ کامریڈ عبدالنبی بنگلزئی، شہید فدا احمد جیسے عملی کرداروں سے تھی اور آج بھی یہی کردار بی ایس او کے انسپائرنگ کردار ہیں ، کامریڈ استاد حمید شاہین، ڈاکٹر اللہ نذر اور بشیر زیب، بانک کریمہ بلوچ سمیت ذاکر مجید و زاہد بلوچ جیسے کرداروں نے بلوچ نوجوانوں کو انسپائر کیا اور وہ امید بھی ایسے ہی کرداروں سے رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی بلوچ جدوجہد کے نام وقف کی۔

استاد حمید شاہین کے کچھ دوست کمیشن کے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھے تب ان کو بھی کہا گیا کہ آپ بھی تیاری کریں جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ایک نوکری کے بدلے ریاست مجھے میری قوم کاز سے دستبرداری کا کہتا ہے جس کے بدلے میں میرا کہنا ہے کہ “آزادی یا موت”

استاد حمید شاہین جس نے فلسفہ پڑھا تھا، جو سوشلزم سمیت دیگر سماجی علوم پر گرفت رکھتا تھا۔ جو سوشلسٹ رسالوں کے لیے کالم لکھتا تھا لیکن اس نے کہیں بلوچ قوم کے اجتماعی مفادات کا سودا نہیں کیا نا ہی ایک دوغلہ راستہ اختیار کیا، ایک جانب ان کے کچھ دوست بیوروکریسی کا حصہ بن گئے لیکن سنگلاخ چٹانوں میں حمید شاہین اپنے کپڑے تک خود دھوتا تھا۔ بلوچ کی آس و امید ایسے کردار ہیں کہور صاحب۔

آئیر کنڈیشنڈ رومز میں بیٹھ کر چند چرب سیاسی اصطلاحات کے ذریعے بلوچ کی قسمت کا فیصلہ ہوتا تو یہ باشعور کردار اعصاب شل کردینے والی راہ کا انتخاب نہ کرتے۔

آپ جو پہلے ہی مسترد کئے جاچکے ہیں، آپ آج بھی مسترد ہی ہو اور آنے والے کل میں بھی اس منافقانہ طرز سیاست کی گنجائش سنجیدہ حلقوں میں نہیں ہوگی۔

آپ جس بیانیہ کو لے کر آگے آرہے ہیں اس میں بناوٹ ہے فریب ہے لیکن سچائی ہرگز نہیں کیونکہ بلوچ کا مسئلہ قومی ہے، آپ اسے ڈائیلسٹ کرنے کے لیے طبقاتی رنگ چڑھا رہے ہیں جو کہ تاریخی حقیقت کو جھٹلانے کی ایک ناکام سی کوشش ہے۔ نظریاتی سیاست جھوٹ کی بنیاد پر نہیں کی جاتی، نوآبادیاتی نظام کو رد کرنا اس عہد کا سب سے بڑا جھوٹ ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ نوابادیاتی نظام میں رہ کر نظریاتی سیاست کی گنجائش ہوتی ہے۔ غلام قوم کی نظریاتی سیاست صرف اور صرف نوآبادیاتی نظام کے خلاف جدوجہد میں ہی ممکن ہے بصورت دیگر تمام صورتیں فریب ہیں۔

بلوچ قوم کے مسئلے کا واحد حل نوآبادیاتی نظام کا خاتمہ ہے اور اسی صورت میں بلوچ من حیث القوم ایک آسودہ زندگی گذار سکتی ہے۔

آپ جس status quo کی بات کرتے ہیں آپ بذات خود اس کا حصہ رہے ہیں، آپ آج جس بیانیہ کو سپورٹ کررہے ہیں وہ اسی status quo کی کشید کردہ ہے۔

جہاں تک سیاسی پارٹی کے قیام کی بات ہے، یہ پارٹی بھی چوں چوں کا مربہ ثابت ہوگی۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ ڈاکٹر امداد بلوچ نہایت ڈرامائی انداز میں تمہید باندھتے ہوئے کہور خان صاحب کے دفاع میں میدان میں اترتے ہیں۔

امداد صاحب کی غیر مستقل مزاجی کے باعث انہیں ہر جگہ کوئی نا کوئی خامی ضرور نظر آتی ہے۔ وہ بی ایس او کو بھی محی الدین کی جھولی میں ڈال دینے کو تیار تھے لیکن چیرمین بشیر زیب کی کاوشوں کے باعث بی ایس او ایک پاکٹ آرگنائزیشن بننے سے بچ گئی۔ بعد میں بی این ایم اور بی آر پی میں بھی یہ جناب کام کرنے کی بجائے مایوسی پھیلاتے رہے۔

امداد بلوچ کا کردار تعمیری ہونے کی بجائے مایوس کن رہا ہے کیونکہ جو خود کردار ادا نہیں کرپاتے ان میں اعتماد کی کمی ہوتی ہے۔

وہ سمجھتے ہیں کہ قربانیاں بیوقوفیاں ہیں لیکن تاریخ میں کوئی ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں جہاں قربانیوں کے بغیر منزل ملی ہو۔

تاریخ بالکل واضح ہے کہ نوآبادیاتی نظام کے خلاف جہد خون آشام ہوتی ہیں۔ ہم سے زیادہ قربانیاں کرد جدوجہد نے دی ہیں لیکن وہاں آج تک کوئی اس طرح مایوس کن باتیں نہیں کرتا بلکہ وہ آج بھی اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ جبر کے ذریعے ہماری قومی طاقت کو کوئی شکست نہیں دے سکتا۔نا ہی وہاں کوئی اٹھ کر ذاتی رائے کی مشت ذنی میں فاشزم جیسے اصطلاحات استعمال کرتا ہے۔

آخری تجزیہ میں بلوچ کے مسائل کا بلوچ قومی جدوجہد آزادی کے کامیابی کی صورت میں ہی ممکن ہے کیونکہ جدوجہد کی سمت واضح ہے، اہداف کا تعین ہوچکا ہے اور جہدکاروں کی کمٹمنٹ شعوری طور پختہ ہے جبکہ وہ عناصر جو فکری بانجھ پن کا شکار ہیں ان کی جانب سے نئی پارٹی جیسی باتیں ایک نئے ٹوپی ڈرامہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ یہ ماضی کے وہ چلے ہوئے کارتوس ہیں جو اب ماضی میں کوئی کام نہ آسکے ابھی تو یہ مزید ناکارہ ہوچکے ہیں جبکہ نظریاتی سیاست کا اصلی روپ بلوچ قومی مزاحمت کی صورت میں ریاستی بیانیہ کے خلاف برسرپیکار ہے اور امید ہے کہ بلوچ جہدکار مزاحمتی بیانیہ کو متبادل بیانیہ کے قالب میں ڈھال کر قوم کے امنگوں کی ترجمانی کرینگے۔
آخری فتح بلوچ قومی جدوجہد آزادی کی ہوگی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔