ہاں میں پاگل ہوں
واحد بخش بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
میرے سمجھ میں کچھ نہیں آرہا میں کیا بولوں، بار بار مجھے ایک ہی لفظ سننے کو پاگل بنا رہا ہے، میرے سامنے میری ماں آنسو بھر ے آنکھوں سے کھڑی مجھے دیکھ رہی ہے، میں اپنے آپ کو قابو کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، لیکن میری آنکھوں پر تاریکی چھائی ہوئی ہے، کسی کو دیکھ نہیں پا رہا ہوں، بس یہی کہ رہا ہوں ہاں میں پاگل ہوں، پاگلوں سے تمھیں کیا لینا دینا؟ اماں جی آہستہ آہستہ میرے قریب آتا ہے اور مجھے اپنی باہوں میں لے کر گھر لے جاتی ہے میرا چیختا چلاتا ہوا گلا سوکھ جاتا ہے، کانوں میں یہی آواز “پاگل” آرہی ہوتی ہے، میرے کہنے کے باوجود میرے چہرے سے محسوس کیا جاتا ہے کہ مجھے کوئی دھمکی دے رہا ہے۔
دو بارہ فون کی گھنٹی بجتی ہے، میں ادھر ادھر دیکھتا ہوں، میری ماں جو میرے ساتھ بیٹھی ہوئی ہے، میری ماں کے ساتھ دیگر دو عورتیں شاشان اور درون بیٹھی ہیں، جو رشتے سے میری ماں کی بہنیں ہیں، جو معصومیت سے میری حرکتیں دیکھ رہی ہیں۔ میں پاگلوں کی طرح ادھر ادھر گھومتا ہوں، ماں مجھے فون اٹینڈ کرنے کا اشارہ کرتی ہے، میں گھبراتا ہوا OK کا بٹن کے بجائے کٹ کا بٹن دباتا ہوں، فون کٹ جاتا ہے، ماں مجھے بار بار پوچھتی ہے کون ہے تمھیں باربار فون کرتا ہے؟ میں کچھ کہنے کے قابل نہیں رہا ہوں، دونوں عورتوں کی طرف دیکھ رہا ہوں جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہی ہیں۔ شاشان کے کپڑے پھٹے ہوئے ہیں، بے بس غریب اور تنگدست نظر آتا ہے اور خاموش بیٹھی ہوئی ہے، درون بہت تیز زبان چلاتی ہے اور بار بار باتوں ہی باتوں میں میری ماں کی پھٹے ہوئے کپڑوں پر ہنستی ہے اور کہہ رہی ہے کہ میں نےبھی بہت دکھ اور تکلیفیں اٹھائی ہے۔ بھوک، پیاس دیکھی ہے، مجھے اپنے حالت پر فخر ہے۔
شاشان غور سے سن رہی ہے اپنی حالت پر رو رہی ہے اور اپنی دل میں پوچھ رہی ہے کہ میں بھی تمہاری بہن ہوں، پھر میری حالت ایسی کیوں؟ مجھے معاف کرنا میں نے اپنی ماں کا نام نہیں بتایا جو دکھوں میں چور چور اپنی بہنوں کی باتیں سن رہی ہے اور اپنی دکھوں کو بیان کرنے کا موقع ہی نہیں مل رہی، میرا دل دھک دھک کر رہا ہے نظریں فون پر لگی ہوئی ہے، کب فون کی گھنٹی بجتی ہے، خوف کے مارے پسینے سے شرابور ہوں، میری ماں کی نظریں مجھ پہ جمی ہوئی ہیں، میں نے اپنا موبائل بند کرکے ماں سے باتیں کرنا چاہتا ہوں، وہ مطعئن ہو سکے، کوئی مجھے فون پر دھمکیاں نہیں دے رہا، میری ماں سے پہلے شاشان نے بات شروع کی، جو خاموش بیٹھی ہوئی تھی کہنے لگی میں اپنے پھٹئ ہوئے کپڑوں پر فخر محسوس کرتی ہوں، میرے بیٹوں نے اپنے گھنے بالوں والے سر کی قربانی دے کر میرا سر فخر سے بلند کیا، مجھے ہواؤں نے تمھاری شہادت کی خبر سنائی، میں آنسو بہا کر ماتم کرنے کے بجائے خود کو سجاکر زیوروں سے لیس ایک بہادر ماں کا کردار اپنایا، موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ایک اعلیٰ مقصد کے لیےجان قربان کرنے پر فخر محسوس کیا، میں نے سادگی اپنائی، جو میسر آیا پہن لیا، اپنے ضمیر کا سودا نہیں کیا، فیشن کرنے کے بجائے پھٹے ہوئے کپڑوں پر فخر کیا، میرے جوانوں نے اپنا پسینہ بہا کر میری تقدیر بدلی اور اپنے خون سے میرا تاریخ لکھا خون کا لکھا ہوا لفظ مٹ نہیں سکتا میرا شان بلند ہے۔ مجھے نفرت ان آستین کےسانپوں سے ہےجو بھیڑ کے بھینس میں بھیڑیئے کا کردار ادا کرتے ہیں، جو ظاہر میں بلوچ اور بلوچیت، باطن میں دشمن کا کردار ادا کرتے ہیں، مار دو ان سانپوں کو جو اپنوں کو چھوڑ کر غیروں میں جا گھسے ہیں۔ بیماری کا علاج دوائی ہے، ایسے لوگوں کو مارنا قومی تحریک میں ان جراثیم نما لوگوں کا مارنا علاج ہے۔
پھر درون کو اپنی کہی ہوئی باتوں کو واپس لینا پڑا، مجھے معاف کرنا میں نہیں جانتی تھی شاشان نے مجھے احساس دلایا، میں اس وقت لاوارث تھی جو دیار غیر سے لوگ شکار کر نے آئے تھے ان شکاری درندوں کو میرے باسیوں نے دیکھ کر، آکر میرے گود میں جگہ لی تو میرا رتبہ سب سے بلند رہا، شکاری لوگ بھاگ گئے، مجھے کسی کی پرواہ نہ تھی، میں ہنستا مسکراتا مان تھی، جب میرے حقیقی فرزند شہید ہوئے مجھے فخر تھا کہ میں شہیدوں کی ماں ہوں لیکن میرا اندازہ غلط نکلا، میں شہیدوں کی ماں نہیں رہی بلکہ ایک بیوہ ماں بن گئی، سب مجھے چھوڑ کر چلے گئے، شاید ان کو میری سوکھی ہوئی روٹی پسند نہ آئی، ان کو لذیز اور مصالحہ دار غزائیں پسند ہیں۔ یا پھر نوٹوں کی گڈی اور ان کی گنتی پسند ہو۔ انہیں ہمیشہ قیمتی کپڑوں کی خواہش، سردی میں گرم سوٹ و کوٹ اور جراب و بوٹوں کی اور گرمیوں میں پسینے کی بدبو سے بچنے کیلئے ایئر کنڈیشن، ایئر کولر، ٹھنڈے پانی، کاٹن کے کپڑے پسند ہوں۔ میں ان سب کا طلب گار نہ ہوں اور دوسروں کو ان سے دوررہنے کی تلقین کرتا ہوں، مجھ سے سبق لیں اپنی اپنی ماؤں کو ایسی حالت میں نہ چھوڑیں جو میرے ساتھ ہوا، پھر رونے لگی شاشان کو بانہوں کو لے کر چیختی چلاتی رہی، بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئی۔
میں نے بات کرنا چاہا، مان نے مجھے تسلی دینا شروع کیا، شاشان اور درون سے مخاطب ہو کر کہنے لگی، ہم سب کا درد ایک ہی ہے، ہمارے جوان شہید ہوئے ہیں، ہم بانجھ نہیں، دوسرے بچے پیدا کرتے ہیں، وہ ہماری رکھوالی کرینگے، ہم سب کا منزل ایک ہی ہے، آزادی تمام شہیدوں کے خون کا بدلہ ہے ۔ میں ،تو، وہ آذادی اور انسانیت کی خاطر اپنے جوانوں کو قربان کر رہے ہیں میں جانتا ہوں تمھارے خون میں بدلہ لینے کی خواہش سو سالوں تک جوان رہتی ہے، بدلہ لینے کے اسی جذبے کو استعمال میں لاکر دشمن سے بدلا آزادی کی شکل میں لو، کیونکہ ہمارا دشمن کمزور ہو چکا ہے، مقابلہ کرنے کی ہمت نہیں ہے، ظالم لوگ اندر سے کھوکھلے ہوتے ہیں، مظلوموں کی آہیں ان کو نیست و نابود کر دیتے ہیں، اپنے اندر ہمت و جذبہ پیدا کرلو، اپنی طاقت اپنی دشمن کے خلاف استعمال کرلیں، اپنے دشمن کو پہچانو دشمن سے لڑتے رہو، اپنے بچوں کو میدان جنگ میں بھیجتے رہو، ہمارے حوصلے بلند ہیں، کامیابی ہماری ہوگی۔
میرا حوصلہ بلند رہا، فون کو آن کیا، جو چائے کے انتظار میں بیٹھے تھے، فون کی گھنٹی بجی میں نے او کے کیا پھر وہی باتیں اور وہی نمبر کب تک لڑتے رہو گے، تم پاگل ہو، میں نے کہا ہاں میں پاگل ہوں سرزمین کا پاگل ہوں، بار بار مجھے فون مت کرنا تمھیں پاگلوں سے کیا لینا دینا کاش میں پاگل ہوتا، اپنے ماؤں بہنوں کو ایسی حالت میں نہ دیکھتا، غلامی کی زندگی سے پاگل کی زندگی کو ترجیحح دیتا۔
دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔