کیا انسان مخالف قاتل شیطانیت کا رقص برہنہ اسی طرح جاری رہےگا؟ – شفیق الرحمن ساسولی

222

کیا انسان مخالف قاتل شیطانیت کا رقص برہنہ اسی طرح جاری رہےگا؟ “

تحریر: شفیق الرحمن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان کے ضلع خضدار میں ایک ہفتے کے اندر پانچ افراد کی قتل نے خضدار والوں کو 2010 تا 2013 کے کچھ جھلک دکھلائی ہے، ماضی قریب و بعید کی ظلمتیں تو تاریخ کا حصہ رہیں گی تاہم مجھے یاد پڑتاہےکہ 2012 میں  خضدار میں ایک دن میں کئی کئی لاشیں گرتی رہیں، پھر زیادہ سے زیادہ لوگ اغواء ہوتے رہے، توتک و دیگر علاقوں سے کئی نامعلوم الاسم لوگوں کی ناقابل شناخت لاشیں ملیں، اس وقت معصوم لوگوں کے بہیمانہ قتل نے صرف خضدار نہیں بلکہ پورے بلوچستان کو لرزہ براندام کردیاتھا، خضدار و بلوچستان کے لوگوں نے وہ وقت جیسے تیسے کرکے گزاردیا تاہم 2014 کے بعد پہلے کی نسبت بہت ہی کم ہفتہ دس دنوں میں کہیں اغواء تو کہیں قتل کے واقعات کی خبریں آتی رہیں مگر حالیہ سال کے وسط سے حالات نے شریف النفس عوام کیلئے اضطراب کا ماحول پیدا کرکے رکھ دیاہے، سمجھ ہی نہیں آتی کہ کیسا ماحول پیداکیاجارہاہے؟ اب ایک ہفتے کے اندر ضلع خضدار میں پانچ افراد کے قتل سے ایک خوف کی فضا قائم ہوچکی ہے خوفناک واقعات کون کررہاہے؟ کیوں کررہاہے؟ بس جو بھی ہے ظلمت قائم کردی ہے اس درندے کی شیطانیت عروج پر ہے، یہ اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ بدامنی ، قتل و غارت گری کے جو واقعات ہوئے قاتلوں کو قرار واقعی سزا نہ ملنے کی وجہ سے آج پھر عوام عدم تحفظ کاشکار ہے، پرامن لوگوں کو تنگ کرنا، شہریوں کو اذیت دینا اور بےگناہ لوگوں کی قتال و غارت گری کی زہر ایک مخصوص ذہنیت کے لوگوں کی شریانوں میں خون بن کر دوڑتی رہتی ہے۔ تربت ڈھنک میں ملک ناز کی قتل، دازن تمپ میں کلثوم بی بی، معصوم ناز بی بی، واشک میں پروفیسرعبدالخالق ریکی و اس کے دوست، پنجگور میں نوعمر فقیرجان، وڈھ لوپ میں دو افراد کاقتل، وڈھ بازار میں ہندو تاجر نانک رام چند، سنی چکو میں رفیق رند، زیدی میں شعیب کا قتل۔ اس طرح پے درپے قتل کی واقعات اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ کوئی قاتل و رہزن ایک خطرناک ماحول سازگار کرنے میں کامیاب ہوچکا ہے۔ ان واقعات کے بعد کئی سوالات ایک بار پھر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، یہ وحشیانہ واقعات چیخ چیخ کر کارپردازانِ حکومت سے سوال کررہے ہیں کہ کیا انسان مخالف قاتل شیطانیت کا یہ رقصِ برہنہ اسی طرح جاری رہے گا؟ کیا بلوچستان کے امن کی اسی طرح اینٹ سے اینٹ بجائی جاتی رہے گی؟ کیا قتل و خون کے رسیا عناصر کو اسی طرح چھوٹ ملتی رہے گی کہ وہ جو چاہیں کریں۔ ماسوائے کسی ایک قوم پرست جماعت اور کچھ انسان دوست افرادکے کیاباقی سب کا مفادپرستی کی خاطر انسانیت کو شرمسار کرنے والے ایسے بہیمانہ واقعات پر بھی خاموشی کا سلسلہ جاری رہے گا؟ کیا ارباب حکومت و قوت کے ہونٹوں پر پڑا ہوا قفل کبھی نہیں کھلے گی؟ کیاان کا ضمیر اس قدر مردہ ہوچکا ہے کہ انسانیت کش واقعات انہیں جھنجھوڑ کر بیدار نہیں کر سکتے؟

ہم تو بہت بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں، انسانی حقوق کے علمبردار ہونے کا دعوی بھی کرتے ہیں، دوسروں کو انسانیت کی تبلیغ اور اپنے آپ کو پوری دنیا میں انسان دوست پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ کیا انہی واقعات کے جلو میں انسانیت کے علمبرداری کی دعوی ٹھیک ہے ؟ کیا شدت پسندی، منافرت اور کسی کی نسل کشی کا یہ جنون ہمیں اس کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اس قسم کے دعوے کریں؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسے لرزہ خیز واقعات کی روشنی میں ہمیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ انسانیت کے علمبردار ہونے یا انسانیت کے حق میں کچھ کرنے کا دعوی کریں۔

بلوچستان کے عوام میں نفرت کاشت کرنے والے یہ کوئی پہلے واقعات نہیں ہیں۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران ایسے واقعات کا ایک لامتناہی سلسلہ جاری ہے، ہر واقعہ کے بعد کچھ آوازیں اٹھتی ہیں، کچھ مذمتی بیانات جاری ہوتے ہیں، حکومت کی جانب سے ہر شہری کو تحفظ فراہم کرنے کے وعدے ہوتے ہیں اور قصورواروں کے خلاف قانونی کارروائی کی یقین دہانی کرائی جاتی ہے اور کسی کو بھی قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہ دینے کا ببانگ دہل اعلان اور پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھر سناٹا چھاجاتا ہے۔ یہ وعدے طاق نسیاں پر سجا دیے جاتے ہیں۔ قاتلوں اور حملہ آوروں کو ایک بار پھر کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے تاکہ وہ پھر اپنی شیطانیت کا کھل کرمظاہرہ کرسکیں۔

ماضی کے انسانیت سوز واقعات کےساتھ ساتھ ڈھنک کے ملک ناز کی قتل ہو یا تمپ کے کلثوم بی بی، پنجگور کے معصوم فقیرجان، واشک میں پروفیسر عبدالخالق اور اسکے دوست کی قتل، وڈھ کے نانک رام چند اور زیدی کے شعیب، سنی چکو کے رفیق رند کی قتل اور وڈھ لوپ سے دو افراد کی ہلاکت ہو یا سیاسی کارکنوں، صحافیوں و دیگر شعبوں سے منسلک شریف النفس انسانوں یا عام شہریوں کو قتل کی دھمکیاں دینے کے واقعات ہوں یا پھر اس قسم کے دوسرے واقعات۔ کیا مجرموں، قانون شکنوں، اغواکاروں ، دھمکاروں، انتہاپسندوں اور قاتلوں کو کوئی ایسی عبرتناک سزا ملی ہے کہ انہیں دیکھ کر دوسرے سبق حاصل کریں اور وہ خود اس راہ پر چلنے سے باز آئیں؟ کیا ایسے واقعات میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانے کی کوئی کوشش کی گئی ہے؟ کیا حکومتوں نے اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں کوئی سنجیدگی دکھائی ہے؟ قطعاً نہیں اور بالکل بھی نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس بعض معاملات میں قاتلوں اور اغواکاروں کو مراعات عطاکرکے عزت افزائی کی جاتی ہے۔ ایسے صورت حال سے یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کی عوام کے خلاف سفاکیت اور بربریت کا مظاہرہ کرنے والوں کو حکومت اور انتظامیہ کی بظاہر پشت پناہی حاصل ہے۔ اگر واقعی ایسا نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ یہ واقعات رکنے کا نام نہیں لے رہے؟ ہو نہ ہو، پر اس طرح کے واقعات کو دیکھ کر یہ رائے قائم کرنے میں کوئی قباحت نہیں کہ ان سماج اور امن دشمن عناصر کو درپردہ ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے اور ان سے کہہ دیا گیا ہے کہ تم جو چاہو کرو تمھارے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی۔

الآخرو بالآخر! ‏بلوچستان بالخصوص ضلع خضدار میں کچھ دن سے پے درپے جو واقعات رونما ہورہےہیں ان کی جتنی بھی مذمت کی جائےکم ہے،ایک دفعہ پھر بدامنی کی جوفضاء پھیلائی جارہی ہےاس سے یہاں کے عوام میں ایک بے یقینی، بےچینی اور خوف پیدا ہوئی ہے یہاں کی عوام امن و سکون کا خواہاں ہے اس سےپہلےکہ مزید کوئی اور ناخوشگوار واقعہ پیش آئے مجرمانہ واقعات میں ملوث عناصر و امن کو سبوتاژ کرنے والوں کے خلاف سخت سے سخت اقدامات کی اشد ضرورت ہے۔

حکام بالا سے عرض ہیکہ بلوچستان کے عوام کو امن و سکون دو، قانون کی بالادستی قائم کرو، یہاں کے عوام کو عزت دو، معصوم لوگوں کے قاتلوں کو قرار واقعی سزا دو۔ ان سب کے ساتھ ساتھ موقعے کی مناسبت سے مقتدر قوتوں سے عرض ہیکہ لاپتہ افراد کے لواحقین پر رحم کرکے لاپتہ افراد کو منظرعام پر لائیں، ان پہ قانونی طریقے سے عدالتوں میں کیسز چلوائیں۔ اگر وہ کوئی غیرآئینی و غیرقانونی جرم کے مرتکب ہوئے ہیں تو ان کے جرم کے مطابق انہیں کڑی سے کڑی سزا ملنے پر بھی لواحقین کو کوئی گلہ شکوہ نہیں ہوگی بس انہیں منظرعام پر لایاجائے۔۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔