کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ کامیاب یا ناکام؟ – سفرخان بلوچ

1180

کراچی اسٹاک ایکسچینج حملہ کامیاب یا ناکام؟

سفرخان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

سرزمین کی عشق میں مبتلا چار نوجوانوں نے قربانی کی ایسی تاریخ رقم کی جنہیں تاریخ ہر دور میں یاد کرتا رہیگا، جوبلوچ مزاحمت میں ایک نیا حوصلہ لے کر آئے اور تحریک میں ایک اور نئی روح پھونک دی، گذشتہ ماہ کراچی اسٹاک ایکسچینج پر ہونے والے حملے نے یہ ثابت کردیا بلوچ اپنی قوم اور بلوچ و بلوچستان کے لئے کہیں بھی جاسکتے ہیں اور کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ یہ حملہ کامیاب ہوا یا ناکام اس پہ غور کرکے سوچیں تو ضرورہم ایک نتیجے پہ پہنچ جائیں گے، مگر اس طرح کے حملوں میں ضروری نہیں کہ آپ لاشوں کے ڈھیر لگائیں اور ہرطرف خون ہی خون ہو، آپ ان جیسے حملوں کو کامیاب قرار بھی دے سکتے ہیں ایک طرف اگر ہم دیکھیں اسٹاک ایکسچینج پر حملہ آوروں کے پاس اس قدر گولہ بارود اور اسلحہ موجود تھا اگر وہ دہشت پھیلانے کی غرض سے گئے ہوتے تو وہ کراچی کے کسی بھی مصروف ترین عوامی پوائنٹ پہ بآسانی حملہ آور ہوتے اور یقیناً ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کو ہلاک کردیتے مگر انہوں نے خاص مقام کا چناؤ کیا تھا۔

جس طرح راز داری اور کامیاب حکمت عملی کے تحت وہ پاکستان کے ہائی الرٹ سیکورٹی والے علاقے جہاں پاکستان اسٹاک ایکسچینج واقعہ ہے، وہاں کئی مالیاتی اور سیکورٹی اداروں کے مرکزی دفاتر بھی موجود ہیں، اسٹیٹ بینک اف پاکستان آئی جی سندھ کا دفاتر پولیس ہیڈ کوارٹر، حبیب بینک پلازہ سمیت کئی نجی بینک اور ٹی وی چینلز کے دفاتر بھی موجود ہیں اور اسٹاک ایکسچینج کی عمارت سے ڈھائی کلومیٹر کے فاصلے پر سندھ رینجرز اور دوسری جانب اتنے ہی فاصلے پر کراچی پورٹ موجود ہے۔

اس طرح کے حملوں کا مقصد ہر وقت دشمن ملک کے معیشت کو نشانہ بنانا ہوتا ہے، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ کسی بھی ملک کے معاشی سرگرمیوں کے مرکز انتہائی مرکزی حیثیت کے حامل ہوتے ہیں، بی ایل اے نے اس حملے کی ذمہ داری جب قبول کرلی تو اس کا بھی یہی کہنا تھا اس حملے کا مقصد پاکستان کے معیشت کو نشانہ بنانا تھا بی ایل اے کے مطابق یہ حملہ ناصرف پاکستانی معیشت کو نشانہ بنانا تھا بلکہ ساتھ ساتھ چائینہ کا بھی بلوچستان میں استحصالی منصوبوں کے ردعمل میں کیا گیا ہے کیونکہ چینی بازار حصص،چائینیز شنگھائی اسٹاک ایکسچینج شینزن ایکسچینج اور چائنا فانینشل فیوچر ایکسچینج اور کراچی اسٹاک ایکسچینج کا چالیس فیصد حصے کا مالک چائینا ہے۔

بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے اس طرح کے حملوں کا مقصد اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانے کا ایک ذریعہ ہوتا کیوںکہ اس طرح کے خاص مقامات پربڑے حملے ہوتے ہیں، بین الاقوامی میڈیا میں بھی وہ زیر بحث ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے ڈسکس ہوتے ہیں، وہ یہ بھی جاننے کی کوشش کرتے ہیں یہ کون ہیں؟ اور کیوں اس طرح کر رہے ہیں؟ اگر اس نقطہ نظر کو دیکھا بھی جائے تووہ غلط نہیں ہیں کیونکہ پچھلے ستر سالوں سے بلوچستان میں پاکستانی بربریت جاری ہے مگر ان جیسوں حملوں نے دو سالوں کے اندر دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے پہ مجبور کیا اس طرح پچھلے ستر سالوں میں نہیں ہوا ہے۔

میڈیا کے اس جدید دور میں طاقتور طاقتیں انسانی دماغ کو باآسانی قابو کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں، دراصل اسٹاک ایکسچینج پر حملے کے بعد پاکستانی میڈیا اس بات کی یقین دہانی کرنے کی آخری کوششوں میں لگی ہے کہ یہ حملہ ناکام ہوا ہے مگر تجزیہ کاروں کے تجزیوں پہ غور فکر کے ساتھ سوچا جائے تو جو مقاصد ہوتے ہیں اس طرح کے حملوں کے انہوں نے یہ حاصل کی ہے ایک تو یہ ہے جس طرح بلوچستان میں آئے روز فوج پر ہونے والے حملوں کو پاکستانی میڈیا کو ریج نہ دے کر یہ بارو کرانے کی کوشش کرتی ہے کہ بلوچستان میں چھوٹے پیمانے پر مزاحمت ہورہا ہے، جسے بہت جلدی کنٹرول کیا جائیگا مگر حقیقت میں بلوچستان میں مزاحمت اس قدر شدت کے ساتھ جاری ہے، جہاں فوجی قافلے کم از کم دس سے کم گاڑیوں کے ساتھ نکلنے کو ڈرتے ہیں اور ہر ایک کلومیٹر پر آپ کو ایک پاکستانی آرمی کی چیک پوسٹ دیکھنے کوضرور ملے گا۔ مگر تمام چیزوں کے باوجود بلوچ قومی تحریک پہلے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے میں ناکام ہوا ہے، مگر اب اس طرح کے حملوں کے بعد ناصرف دنیا صرف انہی حملوں کو دیکھ رہا ہے بلکہ بلوچستان میں ہر چھوٹے بڑے حملے فوج پہ ہوتے ہیں، ان پہ گہری نظر رکھے ہوئے ہیں، تاہم اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا ہے۔ ہمیں حالیہ کچھ وقتوں سے دیکھنے میں آرہا ہے دنیا میں جتنے بھی ادارے ہیں جو جنگوں پہ ریسرچ کرتے ہیں اور بحث مباحثہ و تجزیہ کرتے ہیں وہ بلوچستان میں جتنی بھی جنگیں ہوتی ہیں ان کے ویڈیو وغیرہ آنے کے بعد ان پہ بات کرتے ہیں مگر ان حملوں سے پہلے ایسا نہیں ہوا تھا جو آج ہورہا ہے ظاہر دنیا کو ان ہی جسے حملوں نے اپنی جانب متوجہ کرنے پہ مجبور کیا ہے کراچی ایکسچینج حملے کے بعد سلامتی کونسل میں بلوچ تحریک پر بحث ہوا ہے ہاں اس حملے کی مذمت اگر کی گئی تو اس کے پیچھے چائینا ہے کیوںکہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے چالیس فیصد حصے کا مالک چائینا ہے۔

آج بلوچ نوجوانوں کی قربانیوں نے بلوچ تحریک کو جس بلندی پر شناس کرایا ہے اور تحریک کوایک دم پلٹ کر کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ایک قدم آگے بڑھ گئے ہیں بلوچ تحریک آزادی میں اسکی نظیر آپکو پہلے کہیں بھی دیکھنے کو نہیں ملے گی، تحریک کو یہاں آتے آتے شاہد ایک یا دو دن یا ہفتے اور مہینے نہیں لگے ہیں یہاں پہنچتے پہنچتے تحریک کو دہائیاں لگ گئی ہیں، یہاں پہنچتے پہنچتے بلوچ نوجوانوں نے یہ محسوس کیا ہے کہ بلوچوں کے پاس مرنے اور مارنے کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس وقت بلوچ قومی بقا بلوچ قومی شناخت سب خطرے میں ہیں ایک طرف چین تو دوسری جانب پاکستان جیسے ممالک بلوچ ساحل اور وسائل پر اپنی آنکھیں جمائے بیٹھے ہیں اگر اب کچھ نہیں ہوا تو بلوچ صفحہ ہستی سے مٹ جائیگا ان تمام چیزوں کو محسوس کرتے ہوئے بانی مجید برگیڈ شہید جنرل اسلم نے بلوچ اپنے بیٹے کو فدائی حملے پہ بھیج کر تحریک کو ایک نئی رخ دی اور بلوچ نوجوانوں کو ایک راستہ دکھایا اور بلوچ نوجوان بھی لبیک کرکے اسی راستے پر چل پڑے ہیں اور کاروان کی شکل میں اسی راستے پہ چل رہے ہیں۔

کراچی اسٹاک ایکسچینج حملے کے بارے میں، میں نے درجہ بالا میں یہی کہا تھا کہ جس طرح راز داری اور حکمت عملی کے ساتھ بلوچ فدائیں اپنے ہدف کوپہنچ گئے، میں اسے ایک کامیاب حملہ ہی کہونگا، سب سے بڑی بات ہے کہ جس طرح انہوں نے راز داری کے ساتھ اس کام کو انجام دیا اوروہ اپنے ہدف کو پہنچ گئے کہ اور ابھی تک دشمن حیران ہے کہ یہ کیسے ہوا اور دشمن انہیں روکنے میں پوری طرح ناکام رہا اور وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس طرح کے ہائی الرٹ والے سیکورٹی والے علاقے میں اس طرح کا حملہ ہوسکتا ہے۔ یہ ہے پہلی کامیابی، جس طرح وہ کراچی میں کامیاب حکمت عملی کے تحت اپنی تیاری مکمل گرگئے یہ ہے دوسری کامیاب، جس طرح وہ کراچی کے ہائی الرٹ سیکورٹی اورہزاروں کی تعداد میں پولیس رینجرز،آرمی اور خفیہ ایجنسیوں کی موجود کے باوجود وہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اندر پہنچ گئے، جہاں اسٹیٹ بینک آف پاکستان اور ہیڈ کوارٹرآف پولیس اسٹیشن اور رینجرز ہیڈ کوارٹر ان تمام ہائی الرٹ والے اداروں کے بیچوں بیچ موجود اسٹاک ایکسچینج اور ان تمام اداروں کومجید برگیڈ کے جانبازوں نے شکست دے کر کامیابی کے ساتھ اسٹاک ایکسچینج کے احاطے میں داخل ہوئے اور حملے کے بعد پوری دنیا کو اپنی جانب متوجہ کرنے پر مجبورکرگئے اور تین دنوں تک نیویارک ٹائمز ،دی گارڈین، بی بی سی، سی این این اور الجزیرہ جیسے بڑے اداروں میں صرف ایک ہی بحث ہوتا تھا، یہ تمام چیزیں کامیاب حملے کے زمرے میں آتے ہیں۔

اس وقت بلوچ تحریک آزادی کے اندر کچھ ایسے عناصر بھی ہیں جو مایوسی کے آخری دہانے تک پہنچ چکے ہیں، جو ہر وقت تحریک کے بارے میں منفی سوچ رکھنے کی تگ و دو میں ہیں، عیش وعیاشی، ہیلو بہانوں، آرام پسندی کے عادی ہوئے ہیں، جو ان جیسوں کاروائیوں کو بڑی منفی تنقیدی نگاہوں سے دیکھتے ہیں، انہیں بخوبی اندازہ ہے اگر آنے والے دنوں میں اس طرح کے کاروائیوں میں مزید شدت لائی گئی تو ضرور ان کے اوپر دباؤ بڑھتا جائیگا اور یہ عارضی آرام پسند اور کافی شاپ میں بیٹھ کر سیاست کتابی باتوں پر اپنے آپ کو مطمئن کرتے کرتے یہ عارضی آرام پسند مستقل ہوتے ہوتے رہ جائیگا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔