نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ شہدائے بلوچستان کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں، شہدائے بلوچستان نے بلوچ قومی تحریک کو زندہ رکھتے ہوئے خود کو بلوچستان کے لیئے قربان کردیا اور دنیا کو یہ دکھا دیا کہ بلوچ اپنے قول و اقرار کے پابند ہوتے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ 15 جولائی بلوچ قومی تاریخ کا وہ دن ہے جس میں دھرتی کے بہادر سپوتوں کو حیدرآباد اور سکھر کے جیلوں میں تختہ دار پر لٹکا کر شہید کر دیا گیا تھا۔ ان شہداء میں بٹے خان زرکزئی، سبزل خان زرکزئی، غلام رسول نیچاری، جمال خان زہری، مستی خان موسیانی، ولی محمد زرکزئی اور باول خان موسیانی شامل تھے جبکہ نواب بابو نوروز خان پیراں سالی میں جیل کے اندر ہی جاں بحق ہوگئے.
بیان میں کہا گیا ہے کہ بابو نوروز اور ساتھیوں نے قرآن پاک کو عزت دی مگر ریاستی اداروں نے قرآن پاک کو استعمال کرتے ہوئے بلوچ سربازوں کے ساتھ دھوکہ کیا یہ دھوکہ بلوچ تحریک کے لئیے ایک سبق بن گیا کہ کسی بھی صورت میں اب انکے ساتھ سمجھوتہ نہیں ہوسکتا معزب ریاستیں اپنے اعتماد کو ہر صورت بحال رکھتے ہیں مگر اس واقعہ کے بعد اب بلوچ کسی بھی صورت اعتماد نہیں کرے گا ہم نے دیکھا ہے کہ ہر حکومت آنے سے پہلے معافی کا ڈرامہ رچاتی ہے اور یہ باور کراتی ہے کہ اب بلوچ کے ساتھ کسی قسم کا دھوکہ اور اس پر ظلم جبر نہیں ہوگا مگر بلوچ ان معافیوں کو دھوکے سے زیادہ اور کچھ نہیں سمجھتا۔
ترجمان نے کہا کہ شہدائے بلوچستان نے بلوچ قوم کو یہ پیغام دیا کہ بلوچستان کی قومی شناخت کو ہر صورت بحال کرنے کی ضرورت ہے چاہے اس کے لیئے جتنی بھی قربانی دینے کی ضرورت کیوں نا پڑے، اب بلوچ اپنی قومی شناخت کی بحالی میں ہر وہ قربانی دینے کو تیار ہے جوکہ ایک شعور یافتہ قوم دیتی ہے۔
نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی یہ سمجھتی ہے کہ اب اسلام آباد کے ساتھ کوئی جواز نہیں کہ وہ بلوچ قوم کو مزید دھوکے میں رکھے، بلوچ اپنے شہداء کی قربانیوں کو کسی بھی صورت میں بھولی نہیں ہے، بھلے ہی اس واقعے کو گزرے 60 برس ہی کیوں نہ ہو مگر بلوچ آج کے دن اپنے شہداء کی قربانیوں کو یاد کرتے ہوئے ان کو سلام پیش کرتی ہے۔