مصنف چنوا چیبے
تحریر: واھگ بزدار
دی بلوچستان پوسٹ
واجہ چنوا چیبے 1930 نائجیریا کے گاؤں اگادی میں پیدا ہوئے، جو اس وقت برٹش کی ایک کالونی تھی، چنوا چیبے نے ابتدائی تعلیم اپنے آبائی علاقے سے حاصل کی، واجہ چنوا چیبے افریقہ کے ایک بڑے ناول نگار اور تحریرنگار کے نام سے جانے جاتے ہیں، چنوا چیبے نے افریقی ادب کی خدمات کے ساتھ ساتھ اور بھی ادبی خدمات سر انجام دیئے، واجہ چنوا چیبے کے تحریروں میں ناول، آرٹیکل اور اور افریقی ادب شامل ہے۔
چنوا چیبے کی پہلی کتاب things fall apart ہے جو کہ 1958 کو پبلش ہوئی جو کہ اس کی مشہور کتاب ہے، چنوا چیبے نے 90سے زائد کتابیں لکھیں۔ واجہ کے چند مشہور کتابوں کے نام درج ذیل ہیں
Arrow of God
A man of people
There was a country
The trouble with Nigeria
ان سب کتابوں کے لکھنے کے پیچھے بقول چنوا چیبے کہ کچھ وجوہات ہیں، جنہوں نے ان کو ان کتابوں کو لکھنے پر مجبور کیا اور ان میں جو سب سے بڑی وجہ تھی وہ تھی غلامی جس نے سماج کے ہر پہلو کو تباہ کردیا تھا، اپنی زمین پر کسی غیر کی حکومت اس کے آبائی اخلاقیات اور اقدار کو ختم کر کے اپنے دستور قائم کرکے غلاموں کو یہ باور کروانا کہ وہ تو وحشی اور جنگلی جانور ہیں اور جانوروں سے جانور کی زبان میں بات کی جاتی ہے۔
اس ناول کی شروعات کبڈی کی میچ سے ہوتی ہے کہ وہاں پر اوکنو نے ایک طاقتور اور مشہور کبڈی کے کھلاڑی کو منہ کے بل گرا کر شکست دی یہ وہی شخص تھا جس نے پہلے بہت سے کھیلوں کے بیچ اوکنو اور دوسرے لوگوں کو شکست دی اور ان کو مار کر، اس کے بعد پورے گاؤں میں اوکنو کے طاقتوری کے چرچے مشہور ہوئے، اوکنو بچپن سے طاقتور انسان بننے کی جدوجہد کر رہا تھا، اور اس کو اپنے والد سے شدید نفرت تھی کیونکہ اس کا والد ایک کاہل، سست اور نشئی آدمی تھا اور وہ لوگوں سے ادھار آٹھا کر ان سب پیسوں کو شراب پر خرچ کر دیتا تھا اور جب لوگ اس سے پیسے مانگنے آتے تو ان کے ساتھ لڑتا تھا اور ان کو آدھار واپس نہیں دیتا تھا۔ اس دوران اس کی موت واقع ہوگئی لوگ اس کو نکما آدمی اور کاہل آدمی یاد کرتے تھے۔
اوکنو نے اپنے ساتھ وعدہ کیا کہ وہ نکما اور کاہل آدمی نہیں بنے گا اور اس دوران ہی اپنے بیوی اور بچوں کو کنٹرول کرنا شروع کر دیا، اوکنو طاقتور ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے معاشرے اور لوگوں کا لیڈر ہے اور وہ ہر وقت اپنے ساتھ ایک خنجر رکھتا تھا۔
اس دوران ان کے گاؤں کے قبیلے کی جنگ دوسرے قبیلے سے ہوتی ہے، جس کے بدلے میں اوکنو کے قبیلے کے کچھ افراد جنگ میں مر جاتے ہیں، اس گاؤں میں یہ رواج تھا اگر جنگ کے دوران اگر کوئی کسی قبیلے کے لوگوں کو مارے گا، تو اس کے بدلے وہ آدمی دے گا، اوکنو کو دوسرے قبائل کے لوگ اس قاتل کے بدلے ایک بچہ دیتے ہیں، جس کو اوکنو اپنے گھر میں جگہ دیتا ہے اور آہستہ آہستہ اسے اپنے بیٹے کی طرح محسوس ہونے لگتا ہے اور وہ لڑکا اس کے بیٹے کا بہت ہی قریبی دوست اور بھائی بن جاتا ہے، اوکنو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بہت ہی جذباتی اور غصے والا آدمی بننے لگا، اس دوران وہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنے آجاتا تھا، ایک دن اس نے اپنے بیوی کو اس لیے مارا ہ اس نے دوپہر کا کھانا نہیں دیا تھا۔
اوگبڑی ریجوڈر بھی اس گاؤں کا ایک بہت مشہور اور قابلِ قدر آدمی تھا، اس نے اوکنو سے کہا جس بچے کو وہ جنگ کے دوران قاتل کے بدلے میں لایا تھا، اس کو مار ڈالو کیونکہ وہ معاہدہ اب ختم ہو چکا ہے، اس وقت اوکنو اس بچے کو قاتل کر دیتا ہے اور اوکنو کا اپنا بیٹا اس وقت ان سب چیزوں کو دیکھ رہا ہوتا ہے اور اوکنو کا بیٹا گھر چھوڑ کر چل جاتا ہے۔ اوکنو خود بھی اپنے اپ کو شرمسار محسوس کرتا ہے کیونکہ وہ بھی اس بچے سے پیار کرتا تھا، اس دوران اوکنو اپنے قریبی دوست کے پاس چلا جاتاہے اور دوست کو سب کچھ بتا دیتا ہے، جس پر اوکنو کا دوست اس کو برا بھلا کہتے ہیں اور اوکنو کو کہتا ہے تم نے بہت غلط کام کیا، خدا اور یہ زمین اس کا بدلہ تم سے لے گی ایک دن اوکنو سو رہا ہوتا ہے کہ اس کی بیوی آ کر اس کو جگاتی ہے کہ اس کی چھوٹی بیٹی مر رہی ہے اور وہ اس کو ایک پیر فقیر کے پاس لے جاتے ہیں۔
اس دوران گاؤں کا مشہور شخص اوگرٹی ایجوڈر وفات پا جاتاہے، جو گاؤں والوں کا راہشون سمجھا جاتا تھا اس کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے بہت سے لوگ دور دراز سے آئے ہوئے تھے اور اوکنو بھی وہاں موجود تھا اچانک اوکنو کی بندوق چل جاتی ہے، جو اوگبرٹی ایجوڈر کے بیٹے کو لگاتی ہے اور وہ موقع پر جاں بحق ہو جاتاہے، لوگوں نے اس دوران اس کو بہت برا سمجھا اور اوکنو کو سزا کے طور پر سات سال کے لیے گاؤں سے بدر کر دینے کا کہا اور اوکنو کو اس کی ماں کے علاقے مبانٹا بھج دیا اور اس کے گھر جلا دئیے گئے اور اس کے جانوروں کو دبخ کر دیا گیا اس دوران اوکنو کا دوست اس کی زمینوں کو کاشت کرتاہے اور ان کا خیال رکھتاہے۔
اوکنو کا دوست دو سال بعد اوکنو سے ملنے مبانٹا چلا جاتا ہے اور اس کو گاؤں کے حالات سے آگاہ کرتاہے کہ گاؤں میں چند سفید فام افراد آئے ہیں اور ہمارے لوگوں نے کہا ہے کہ یہ ہمارے ثقافت اور زبان اور تہذیب کو ختم کرینگے اگر ہم نے ان کو کچھ نہ کہا تو اس دوران گاؤں والوں نے کچھ سفید فام لوگوں کو قتل کر دیا اور اس کے بعد سفید فام کی ایک فوج آئی اور اس نے گاؤں کو تہس نہس کر دیا۔
اس دوران چند سفید فام لوگ مبانٹا آئے اور لوگوں کو عیسائیت کے طرف راغب کرنے لگے، اس دوران ان کا واسطہ اوکنو اور اس کے بیٹے سے ہوا اوکنو نے ان کے باتوں کو ماننے سے انکار کر دیا جبکہ اس کا بیٹا ان سے متاثر ہوا اور عیسائیت قبول کر لی سفید فام لوگوں نے گاؤں کے معتبرین سے زمین دینے کا کہا جہاں پر وہ اپنے لئے چرچ بنا سکیں اور اپنی عبادت کرسکیں، اس دوران گاؤں والوں نے مشورے کے بعد ان کو ایک ایسی جگہ زمین دی جو گاؤں والوں کی نظر میں شیطان کی جگہ تھی، جہاں پر یہ سفید فام لوگ خود بخود ختم ہو جائیں گے اور پھر سے گاؤں والے اپنے گاؤں میں سکون سے زندگی جی سکیں گے کچھ وقت کے بعد سفید فام لوگوں نے وہاں پر اپنا چرچ بنا لیا اور عبادت کرنے لگے جب ان کو کچھ نہیں ہوا تو گاؤں والوں نے کہا یہ سفید فام لوگ جسمانی اور ذہنی حوالے سے بہت طاقتور ہیں اور ان کا خدا بھی بہت طاقتور ہے جن کو شیطان بھی کچھ نہیں کر سکتا ہے۔
شروع شروع میں سفید فام لوگوں نے ان پڑھ گاؤں والے لوگوں کو مذہب کی دعوت دی، جن کی معاشرے میں کوئی اہمیت نہیں تھی اور سماج میں ان کو برے نظر سے دیکھا جاتا تھا، اس کے بعد سفید فام لوگوں نے اموفیا سکول اور چرچ بنائے اور لوگوں کو دعوتِ دی اس دوران اوکنو کے بیٹے نے گھر سے بھاگ کر اموفیا چلا گیا اور اس سکول میں تعلیم حاصل کرنے لگا اس دوران اوکنو کی سات سال کی سزا ختم ہو جاتی ہے ۔ اوکنو اموفیا گاوں واپس چل جاتا ہے، وہ جب گاؤں پہنچتا ہے تو حیران ہوتا ہے کہ پورا کا پورا گاؤں تبدیل ہوچکا ہے اور لوگوں نے اپنی ثقافت ،زبان اور مذہب چھوڑ دی تھی، انہوں نے اپنے نام بھی تبدیل کر دیئے تھے اور عیسائیت کی طرف لوگوں کو راغب کر رہے تھے، وہ عقائد جن کی خاطر وہ جان دینے کو تیار تھے، ان کو برا بھلا کہہ رہے تھے۔
اس دوران سفید فام لوگوں نے اپنے جیل بنائے، جہاں سیاہ فام لوگوں کو سزا دی جاتی تھی، اوکنو نے سوچا کہ کیوں گاؤں والوں نے ان سے لڑائی نہیں کی۔ مسڑ براوئن ایک سفید فام آدمی ہے، جو سیاہ لوگوں کی عزت کرتا ہے اور لوگوں سے کہتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجی تاکہ ہم نائجیرین کو علم دے کر ان کو ترقی سے آشنا کروا سکیں، اس دوران اس سے اپنے بیٹے کے بارے میں پوچھتا ہے تو مسڑ بروائن کہتاہے وہ عیسائی بن چکا ہے اور اس نے اپنا نام تبدیل کر کے اسحاق رکھا ہے، اوکنو مزید پریشان ہو جاتا ہے اس دوران مسٹر بروائن بیمار ہو جانے کی وجہ سے اپنے ملک چلا جاتا ہے اور ان کی جگہ جیم سمتھ نام کا ایک آدمی چرچ کا بڑا بنتا ہے اور سیاہ فام لوگوں سے نفرت کرتا ہے اور ان کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔
انچو تہوار کے موقع پر وہ گاؤں کی لوگوں کی بےعزتی کرتاہے اور گاؤں والوں کو اس کی یہ حرکت اچھی نہیں لگتی اور وہ ان پر حملہ کردیتے ہیں اور چرچ کو توڑ ڈالتے ہیں۔
اس دوران جب علاقے کا ڈی سی موقع پر آتا ہے، تو حالات کو دیکھنے کے بعد گاؤں کے چھ معتبرین کو بلاتا ہے اور ان کو گرفتار کر کے جیل میں بند کر دیتا ہے اور اگلے دن عوامی اجتماع پر پابندی لگا دی جاتی ہے۔ لیکن لوگ اگلے روز بڑی تعداد میں اجتماع کرتے ہیں۔ اس دوران پانچ سفید فام لوگ جن کو عدالت کی طرف سے بھیجا جاتاہے تاکہ اس اجتماع کو ختم کردیں اور لوگوں کو منتشر کر کے ان کو گرفتار کرلیا جائے لیکن اس دوران اوکنو ان کے چیف پر حملہ کر دیتا ہے اور اس کو موت کے گھاٹ اتار دیتا ہے۔ اوکنو جب باقی گاؤں والوں کو دیکھتا یے کہ وہ ان چاروں سفید فام کو کچھ نہیں کہہ رہیں اور ان کو جانے دیتے ہیں تو اوکنو حیرانگی سے ان کی طرف دیکھتا ہے اور یہ سوچتا ہے کہ اموفیا گاؤں کو بیماری لگ گئی ہے اور ان کی نفسیات اب سفید فام والی بن گئی ہے اور اب ان کا کچھ ہو نہیں سکتا، وہ یہ کہتے ہوئےہر چیز تباہ ہوگئی ہے رسی سے لٹک کر خودکشی کر لیتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔