مادر وطن کا بہادر بیٹا گاجی خان
تحریر : شئے رحمت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
مزاحمت زندگی ہے، مزاحمت ہم کو یہ درس دیتا ہے کہ ہم ایک زندہ انسان ہیں، ہمارے پاس بھی احساس نامی چیز ہے، مزاحمت ہم کو یہ سبق دیتا ہے کہ ہم ظالم کے خلاف لڑنے کی طاقت رکھتے ہیں، مزاحمت ہم کو یہ درس دیتا ہے کہ حق مانگی نہیں جاتی حق چھینی جاتی ہے، مزاحمت ہم کو بتاتا ہے کہ جیت حقیقت، ایمانداری اور سچائی کی ہوتی ہے، نہ کہ منافقت اور جھوٹ کی۔ مزاحمت ہم کو درس دیتا ہے کہ غلامی کی زندگی سے آزادی کی موت بہتر ہے، وہاں جینے سے مرنا بہتر، جہاں آپ اپنے مرضی ست ایک قدم بھی نہ اٹھا سکیں، ایک فیصلہ نہ کرسکیں، غلامی کو کبھی بھی قبول نہیں کرنا چاہیئے، کیونکہ اگر آپ نے قبول کیا، تو نسلوں تک غلام ہی رہوگے، غلامی کے خلاف مزاحمت کرنا چاہیئے ، اگر مزاحمت کی تو آپ کا قوم نسلوں تک، بہادر، قوم پرست، ایماندار، وطن پرست رہےگا۔
بہادر قوم کا بہادر بیٹا گاجی خان کو پتہ تھا کہ پاکستان کے قبضے سے اپنے مادر وطن بلوچستان کو آزاد کرنے کے لیے قربانی دینا ہمارا فرض ہے، شہید گاجی خان ، مشکے میہی میں میر اسحاق کے گھر پیدا ہوئے۔ میہی بلوچستان کا ایک ایسا گاؤں ہے جہاں پینے کےلیے پانی موجود نہیں، اسی وجہ سے گاجی خان ایک بنیادی حق سے محروم ہوکر تعلیم حاصل نہ کر پائے، لیکن وہ بے شعور، بے خبر ، اپنے حق سے انجانے نہیں تھے ، بلوچ رہنما ڈاکٹر اللہ نظر کا ایک قول ہے کہ ایک غلام کو نہ پی ایچ ڈی کی نہ ہی مکالے کی ضرورت ہے، اسے صرف یہ محسوس کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ غلام ہے، جیسے ہی اسے یہ احساس ہونے لگے ، اس کا آزادی اسی دن سے شروع ہوجاتا ہے۔ شہید گاجی خان نے جب ایک جنگ زدہ علاقے میں آنکھیں کھولیں ، اسی دن سے اس نے بے گناہوں کی لاشیں گرتے دیکھے، وہ ایسے چپ بیٹھ کر تماشہ دیکھنے والوں میں سے نہیں تھا، وہ جیسے ہی بڑا ہوا، اس نے مزاحمت کی زندگی اپنا لیا 2014 میں بی ایل ایف کے پلیٹ فارم سے جہد شروع کیا۔
شہید گاجی کی ماں جسکی دماغی حالت ٹھیک نہیں تھی، اس کا ابو میر اسحاق بھی معزور تھا۔ ایک دفعہ شہید سے کسی نے ہنس کر کہا کہ آپ کو پتہ ہے کہ آپ کے امی اور ابو دونوں کا آپکے بغیر گذارا نہیں ہوسکتا، آپ اس جنگ کو اپنے اوپر ایک فرض نہ سمجھ کر، واپس جائیں آپ کےلیے بہتر ہے، وہ بہت ہی غصے میں آکر بولا کہ آپ کون ہوتے ہو ، مجھ سے یہ حق چھیننے والے ، جس شخص نے شہید سے یہ الفاظ کہے ، وہ بعد میں سرنڈر کرکے ، پاکستانی ڈیتھ اسکواڈ میں چلے گئے ، بعد میں اس کو ڈیتھ اسکواڈ نے خود ہی گلے میں رسی ڈال کر مارا ، لیکن شہید گاجی خان قومی تاریخ میں اپنے وفاداری کے قصے کو چھوڑ کر چلے گئے، شہید گاجی خان کےلیے آج ہر بلوچ کے دل میں احترام، عزت اور محبت ہے، لیکن وہ جس نے سرنڈر کیا وہ غدار کے نام سے جانے جاتے ہیں ۔
شہید گاجی خان 30 june 2015 کو مشکے کے علاقے میہی میں فوج کے ہاتھوں شہید ہوئے، شہید گاجی کے پاس بندوق نہ ہونے کی وجہ سے وہ فوج کے گرفت میں آجاتے ہیں، اس کو کالے ماسک والے دلار پہچان جاتے ہیں اور فوج کو بولتے ہیں کہ گاجی خان کو شہید کردیں، تو شہید گاجی خان ان کے ہر لفظ کا جواب دیتے ہیں، شہید کو جب ایک گولی مارا جاتا ہے تو ، وہ بولتا ہے ، مجھے پتہ ہے زندگی کا آخری لمحہ ہے ، مجھے ایک سگریٹ جلا کر دیدو، لیکن فوجی اس کو باقی لوگوں کے سامنے شہید کرتے ہیں۔ شہید کی شہادت کے بعد اس کی امی رونے کے بجائے ، یہی کہتی ہے کہ میرا بیٹا شہید ہے مجھے اس پر فخر ہے میں پریشان بالکل بھی نہیں ہوں۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔