لینن ۔ کامریڈ علی ظفر

901

لینن

تحریر۔ کامریڈ علی ظفر

دی بلوچستان پوسٹ

زیادہ تر تاریخ دان آپ کو یہی بتائیں گےکہ لینن اور لینن ازم بہت بری چیزیں ہیں۔ یہ کہتے ہیں لینن نے عام سے اپنی ہی پارٹی پر حکومت کی، اور بعد میں روسی انقلاب سے تعمیر ہونے والی ریاست پر بھی ایسے ہی مسلط رہا۔ یہی بتایا جاتا ہے کہ لینن ہزاروں افراد کی موت کا ذمہ دار ہے۔ وہ ایک آمرانہ سماج کا خالق تھا۔ اسٹالن تو بس لینن سے چند قدم پیچھے ہی چلا ہے۔ یوں لینن کو ہٹلر اور صدام حسین کی صف میں کھڑا کردیا جاتا ہے یعنی یہ جدید دنیا کے بڑے ولن ہیں۔ حال ہی میں بہت مشتہر ہونے والی کتاب کے مصنف مارٹن ایمس، جنہوں نے سیکس اور تشدد پر بھی اپنی ناولوں سے فرصت نکال کر تاریخ پر اپنے جواہر بکھیرے ہیں، یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ لینن اور ٹراٹسکی محض اسٹالن سے پہلے کے حکمران نہ تھے بلکہ انھوں نے ہی ایک چلتا پھرتا پولیس اسٹیٹ قائم کیا، جسے بعد میں محض استعمال کیا گیا ۔

بائیں بازو (لیفٹ) کے لوگ بھی لینن پر تنقید کرتے ہیں۔ یہ کہتے ہیں کہ لینن نے کرونسٹاڈ میں مزدورں کی بغاوت کو کچلا، یوکرین میں آزاد انارکسٹ تحریک کی مخالفت کی اور انقلاب کے بعد ہونے والی فیکڑی کمیٹیوں کو تباہ و برباد کر دیا۔

حقیقی لینن ان سطحی باتوں سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھا۔ آج کی دنیا لینن کی دنیا سے بہت مختلف ہے۔ لینن کے اولین پمفلٹ ہاتھ سے لکھے جاتے تھے، آج ایک بٹن دبائیں اور خیالات ساری دنیا میں پھیل جاتے ہیں لیکن اگر آج لینن پھر سے لوٹ آئے تو وہ بہت جلد کئی چیزیں پہچان لے گا یعنی نہ ختم ہونے والی جنگیں، بڑھتا ہوا امیر غریب کے بیچ فرق، ریاستی تشدد میں اضافہ، غریب ممالک کی امیر کمپنیوں کے ہاتھوں لوٹ مار، بڑے سیاستدانوں کا کرپشن اور بے اختیار ہونا۔

لینن انقلابی کیسے بنا؟
ولادئمیر اولیانوف لینن، جو بعد میں لینن کے نام سے پہچانا گیا، 1870ءمیں پیدا ہوا۔ اسکے والد اسکولوں کے انسپیکٹر تھے۔ اس وقت روس ایک بہت وسیع سلطنت تھا ۔ یہاں لوگ زندگی بھر جاہل کسان رہتے اور انھیں کمر توڑ محنت کرنی پڑتی، باربار قحط کا سامنا کرنا پڑتا۔ اپنے گاوں سے باہر کی دنیا کے بارے میں یہ کچھ نہ جانتے علاوہ ان لوگوں کے جو سپاہی بناکر قتل ہونے کو بھیج دیے جاتے۔ جاگیرداری ایسی تھی جو عملاً کسانوں کو غلام بنا ئے رکھتی ۔1861ء میں جاکر ختم ہوئی ۔ بادشاہ جسے زار کہا جاتا اپنی مرضی سے حکمرانی کرتا۔ زار کے روس میں کوئی پارلیمانی ادارہ بھی نہیں تھا۔ یہ محض دانشور اور طلبہ تھے کہ ان کا کام جبر کا شکار کسانوں کو آزاد کرانا تھا۔ انکے طور طریقے اکثر بم دھماکے کرنا اور نشانہ بناکر قتل کرنا تھا ۔ یہ بہت بہادری کا مظاہرہ کرتے مگر ان کا اثر بہت کم ہوتا ۔ لینن کا بھائی ایسی ہی سر گرمی میں ملوث تھا اور اسے 1887ءمیں پھانسی ہوگئی۔

اس بات نے لینن کو انقلابی بنادیا۔ کچھ عرصے تو وہ دنیا کو بدلنے کی حکمت عملی کی کھوج کرتا رہا۔ بلاآخر وہ مارکس کی تحریروں پر متوجہ ہوا۔ مارکس کا کہنا تھا کہ سرمایہ داری استحصال کرتی ہے ۔

لینن کے لیے انقلابیوں کو وہاں ہونا ہے ۔ جہاں مزدور ہیں۔ 1890ءکی دہائی کے ابتداء میں مزدور دانشوروں کے چھوٹے اسٹڈی سرکل ہوتے، یہ افراد علم حاصل کرنے میں شدت سے کاربند تھے۔ لیکن ساتھی مزدوروں سے بہت دور تھے۔ لینن کی دلیل تھی کہ سوشلسٹوں کو اپنے آپ کو حقیقی جدوجہد میں شامل کرنا ہوگا، ایسے مسائل کے ساتھ جوڑنا ہوگاجیسے اجرتوں کو بڑھانے اور کام کے حالات بہتر کرنےکی جدوجہد، بے شک یہ کتنی ہی محدود کیوں نہ نظر آتی ہوں 1890ء کی دہائی میں سینٹ پیٹر برگ میں لینن کی سرگرمی کا آغاز ہوا۔ لینن تب یہ دلیل دیتا کہ سب سے اہم کام احتجاجیوں کی تربیت ہے۔ اس کی اپنی سرگرمی فیکٹری کے حالات کا مطالعہ کرنا اور پھر اس بابت پمفلٹ تیار کرکے اسے فیکٹریوں میں تقسیم کرنا ہوتا۔

1899ء میں لینن کی کتاب ، روس میں سرمایہ داری کی پیش رفت، شائع ہوئی۔ یہ کتاب تین سالوں کی ریسرچ پر مبنی تھی۔ لینن نے یہ کام جیل یا جلاوطنی میں ہی کیا۔ یہ اعدادوشمار اور زائچوں سے بھر پور تھی۔ مگر اس کا بنیادی نکتہ سادہ سا مزدور، خود سے سوشلسٹ خیالات تک پہنچ جائیں گے۔

اس بات کا اہم پہلو سوشلسٹ اخبار کا قیام تھا کیا کیا جائے؟ کا آخری حصہ ایک ایسے اخبار کا تقاضا کرتا ہے۔ جو پورے روس کو کور کرے۔ یہ اخبار مشترکہ کار بھی ہونا تھا۔

اخبارات جیسے اسکارا(چنگاری ) جن کے ادارتی بورڈ پر لینن تھا۔ یہ بیرون ملک چھاپے جاتے اور انھیں روس میں اسمگل کیا جاتا یا پھر انھیں غیر قانونی قرار دیے گئے پرنٹنگ پریسوں پرچھاپا جاتا۔

لینن کی دلیل تھی کہ پارٹی کو کسی ایسے شخص کے لیے اوپن نہیں ہونا چاہیے جو اس کے خیالات سے عمومی طور پر ہمدردی رکھتا ہو۔ لیکن پارٹی کو پروفیشنل انقلابیوں کی ایسی تنظیم ہونا چاہیے کہ جو اپنی تمام تر توانائی جدوجہد کے لیے وقف کردیں۔ درحقیقت ایک مستحکم مرکز پسند انقلابیوں کی تنظیم ہوتی ہے۔

لینن نے اس بات پر زور دیا کہ اگر نئے لوگ متحرک ہورہے ہیں تو کوئی مضائقہ نہیں کہ یہ غلطیاں بھی کریں گے۔

لینن نے پیٹرسبرگ پہنچ کر یہ دلیل دی کہ پارٹی کو انقلابی مزدورں میں اپنی جڑیں بنانا ہوں گی۔ یعنی ان مزدوروں میں جڑیں جو لڑنا چاہتے ہیں۔مثلا عیسائی مزدوروں کو پارٹی کارکن بننے دینا چاہیے۔ لینن کی دلیل تھی کہ اگر یہ لڑنا چاہتے ہیں اور انکے مذہبی خیالات بھی ہیں۔ تو یہ غیر متوازن طور پر کام کریں گے۔

لینن جنون کے حد تک پارٹی کی تعمیر پر توجہ دیتا ۔ دیگر انقلابی شارٹ کٹ تلاش کرتے رہتے۔ گورکی لینن کا دوست تھا، اس نے 1905ءمیں بالشویک پارٹی میں شمولیت کی اور اسکا ناول، ماں، جو 1906ء میں شائع ہوا، انقلابی تحریک کی ایک شاندار روداد ہے۔1909ء میں گورکی نے ایک تعلیمی اسکول منعقد کیا ۔ اس بار روسی کارکنان نے شرکت کی۔ لینن نے اس میں شامل ہونے سے اس لیے انکار کردیا کہ اسکے گورکی سے فلسفیانہ اختلافات تھے۔ جب پانچ طلبہ نے گورکی سے بحث کرتے ہوئے واک آوٹ کردیا تو لینن نے انھیں فورا ہی پیرس بلالیا۔ یہ پانچوں بہت قیمتی لوگ تھے۔

سامراجیت۔۔۔
جنگ کے اس دور میں لینن مزید وضاحت ار سمجھ بوجھ کے لیے دلیل دیتا رہا۔ 1916ءمیں وہ سامراجیت پر ایک چھوٹی سی کتاب لکھتا ہے ۔ اس کتاب میں جنگ کی وجوہات کا تجزیہ اس بابت کیا گیا تاکہ اسکی مخالفت زیادہ موئثر انداز سے کی جاسکے۔


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔