وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک پرامن جمہوری تحریک ہے جو پاکستانی آئین و عدلیہ پر مکمل یقین رکھتی ہے اور وی بی ایم پی ایک سادہ مطالبہ ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی شہری کسی خلاف قانون سرگرمی میں ملوث ہے تو اس کو پولیس و عدالتوں کے ذریعے آئینی طور پر گرفتار کرنے کے بعد عدالت کے ذریعے اس پر ٹرائل کی جائے، عدالت انہیں جو بھی سزا دے گی ہمیں منظور ہے، خفیہ ایجنسیوں اور ان کے پرائیویٹ ڈیتھ اسکواڈز کو شہریوں کی اغواء کرنے اور ان پر تشدد کا کوئی حق نہیں اور یہ بنیادی انسانی حقوق و بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔
انہوں نے میڈیا نمائندوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد صوبائی حکومت کے سابق ترجمان انوار الحق کاکڑ کی مسنگ پرسنز کے حوالے سے میڈیا سے حال میں گفتگو اور “رائٹ ٹو اپریئنشن” کی قانون کی غلط وضاحت کہ ایف سی کو پولیسنگ اختیار حاصل ہیں اس لیے وہ لوگوں کو سالوں تک اغواء کرنے میں حق بہ جانب ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا 2001 سے اصغر بنگلزئی، 2007 سے مشتاق، 2009 سے ڈاکٹر دین محمد بلوچ، کبیر، عطااللہ، زاکر مجید، 2010 سے رمضان بلوچ، وہاب بلوچ، 2014 سے چیئرمین زائد بلوچ، اسد بلوچ سمیت ہزاروں افراد پچاس ہزار سے زائد افراد کے ایجنسیوں کے ہاتھوں اغواء کے دعویدار ہیں، انیس سو 75 کے لاپتہ افراد زیر بحث نہیں، کیا 2000 سے 2020 تک پچاس ہزار افراد “رائٹ ٹو اپریئیشن” کے تحت پاکستانی زندانوں میں اذیت سہہ رہے ہیں کہ جن میں اغواء بعد غلام محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ، لالہ منیر، رسول بخش مینگل، جلیل ریکی، سنگت ثناء سمیت دیگر دسیوں ہزار بلوچوں کو اسی رائٹ ٹو اپریئیشن کے تحت زندانوں میں انسانیت سوز تشدد کرکے ان کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینکی گئی۔
ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کہ کاکڑ صاحب دعویٰ کررہے ہیں کہ لاپتہ افراد کی تعداد محض 116 اور ان میں سے 50 کیس یو این ورکنگ گروپ میں سبمٹ ہیں۔ وی بی ایم پی کا مطالبہ انوارالحق صاحب سے سادہ سا ہے کہ آپ یو این کی ہیومن رائٹس ورکنگ گروپ اور یو این فیکٹ اینڈ فائنڈنگ مشن کو بلوچستان میں دورہ اور آزادانہ تحقیقات کی اجازت دیں، لاپتہ افراد کی تعداد ایک سو سولہ یا پچاس ہزار سے زائد ہوگی ہمیں کوئی اعتراض نہیں اور آپ کے مطابق ایک سو سولہ افراد اغواء ہیں تو ایک سو سولہ شہری آپ نے پاکستان کے آئین کے کس شق اور کس عالمی قوانین کے تحت اغواء کیئے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ انوارالحق صاحب کی یادداشت ساتھ نہیں دے رہی ہے کہ وہ بھول ہی گئے کہ مشرف دور 2005 میں وفاقی وزیر داخلہ آفتاب شیر پاو کا دورہ تربت کے موقع آن دی ریکارڈ پریس کانفرنس موجود ہے کہ شیر پاو صاحب 5000 بلوچوں کی جبری طور پر اغواء کرنے کا اعتراف کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ سی پیک اور بلوچستان میں امن و امان کے موضوع پر ایک پروگرام اکتوبر 2014 میں حکومت نے یہ خود اعتراف کیا تھا کہ محض دسمبر 2013 سے ستمبر 2014 تک 9800 بلوچوں کو اغواء کیا جاچکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے کہ حکومت اتنے افراد کو اغواء کی تصدیق کرچکا ہے۔ اگر انوارالحق صاحب جبری پکنگ کرکے یو این ورکنگ گروپ، ہیومن رائٹس واچ کے 2012 کے اور دیگر رپورٹس کو نظرانداز کرکے محض یو این ورکنگ کی پچاس بلوچوں کی لسٹ کی بات کررہے ہیں تو کیا یہ ریاست کے لیے باعث بدنامی و باعث شرم نہیں ہے کہ پچاس بندوں کی کیس یو این میں جمع ہے اور ریاست ان کی بازیابی کے لیے کچھ بھی نہیں کررہا ہے اور کاکڑ صاحب شرمندہ ہونے کی بجائے فخر سے بیان دے رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کی مکمل تصدیق شدہ تعداد کسی کے بھی پاس نہیں کیونکہ اب تک جتنے بھی ہیومن رائٹس ڈیفینڈر نے بلوچستان میں انسانی حقوق کے حوالے سے کام کرنے کی کوشش کی یا بات کی ریاست و اس کی آرمی و خفیہ ایجنسیوں نے انہیں شہید کیا۔
انہوں نے کہا کہ بلوچوں کی نسل کشی ہورہی ہے محض توتک کی ایک اجتماعی قبر سے 169 لاشیں ملی، پتہ نہیں مزید کتنے اس طرح کی اجتماعی قبروں میں خفیہ ایجنسیوں نے اپنے پرائیویٹ ڈیتھ اسکواڈز کے ذریعے بلوچ لاپتہ افراد کے مسخ شدہ لاشوں کو دفنا دیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دوران فوجی آپریشن لوگوں کو اغواء کیا جاتا ہے، ان پر انسانیت سوز تشدد کی جاتی ہے، دوران آپریشن گھروں کے قیمتی سامان کو لوٹنے کے بعد جلایا جاتا ہے، کھڑی فصلوں اور جنگلات کو جلایا جاتا ہے اس وقت پورے بلوچستان میں آپریشن جاری ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ سینیٹر انوارالحق کاکڑ ” رائٹ ٹو اپریئنشن” کے نام پر غلط بیانی اور لاپتہ بلوچوں کی تعداد کو انتہائی کم پیش کرکے لاپتہ افراد کی تعداد کو جسٹس جاوید اقبال کی طرح متنازعہ بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ لاپتہ افراد و بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیوں، فوجی آپریشنوں کی تمام تفصیلات ویب سائٹ http://hakkpaan.org/ سے حاصل کیئے جاسکتے ہیں۔