شہید علی نواز گوھر کون تھے؟
تحریر۔ شئے رحمت بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
انسان کبھی نہیں کہتا کہ میں اپنے عیش اور آسودہ زندگی کو اپنے ہاتھوں سے گنوا بیٹھوں، میں ایک ایسی زندگی بسر کروں جہاں نہ میں آرام سے بیٹھ سکوں نہ اپنے بہن بھائی و اپنوں سے مل سکوں، لیکن ان سب کے باوجود کچھ ایسے واقعات انسان کی آنکھوں کے سامنے سے گزرتے ہیں، جن کو آپ چاہ کر بھی نظرانداز نہیں کر پاتے، ایسا نہیں کہ ہر انسان نظرانداز نہیں کر پاتا، کچھ لوگ اپنے مردہ ضمیری کی وجہ سے، نظر انداز کرتے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو قوم پرست، وطن پرست، ہوتے ہیں۔ سچائی سے محبت کرتے ہیں، اِن میں لڑنے کا جذبہ ہوتا ہے، ان میں قربانی کا حوصلہ ، برداشت کی انتہاء ہوتا ہے۔ شہید نواز جان بھی ایک ایسے ہی شخصیت کے مالک تھے۔
شہید علی نواز عرف گوھر کا جنم نبی بخش کے گھر میہی میں ہوا، وہ اپنے ہی علاقے میہی کے ایک چھوٹے سے اسکول میں جماعت پنجم تک پڑھا، لیکن اسکے بعد وہ جیبری اور نوکجو اپنی تعلیم کا سلسلہ مزید بڑھانے کیلئے چلے گئے۔ وہ اکثر محنت میں لگے ہوئے دیکھے جاسکتے تھے، وہ دوران تعلیم بہت محنت کرتے تھے، اسکول کے ساتھ ساتھ وہ گھر کے کام وغیرہ میں اپنے والدین کی مدد کرتے تھے ، بلوچستان کے لوگوں کو اکثر بھیڑ بکریوں سے زیادہ لگاؤ ہوتا ہے، اسی طرح شہید نواز جان بھی یہ شوق رکھتے تھے۔
شہید نواز جان کے ابو کے جانے کے بعد وہ اپنے بڑے بھائی سفر خان کے ہاں رہنے لگے، شہید سفر جان، ایک استاد تھے، جو اکثر اپنے ڈیوٹی کے سلسلے میں آتے جاتے رہتے تھے، وہ کبھی آواران تو کبھی جاؤ تو کبھی مشکے میں مصروف رہتے تھے۔ وہ دن رات اپنے امی، بہن بھائیوں سے دور رہ کر اپنے چھوٹے بھائیوں کو پڑھاتے، ڈاکٹر اللہ نذر اور نواز جان کے لئے سفر خان ایک بھائی نہیں بلکہ ایک باپ تھا۔ یاد رہے شہید نواز جان، شہید سفر جان کی ہر بات کو مانتے تھے، وہ ان کا اتنا ہی قدر کرتے تھے جیسے کسی والد کا احترام کیا جاتا ہے۔ وہ کبھی سفر خان کے بات کو رد نہیں کرتے، جو بھی سفر خان کہتے تھے، وہ ایسا ہی کرتے، شہید نواز جان اور کتابوں کا ایک الگ ہی رشتہ تھا، جو ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے تھے، اسی لئے آج وہ ایک تاریخ کا حصہ بن کر جی رہا ہے۔
شہید نواز، ڈاکٹر اللہ نذر، شئے اختر ندیم ، ساتھیوں سمیت کراچی سے ، march 2005 میں گرفتار ہوئے۔ جن کو ٹارچر سیل لے جایا گیا۔ جنہیں غیر انسانی طریقے سے سزا دی گئی۔ 14Aug 2005 کو شہید نواز کو ساتھیوں سمیت ہیلی کاپٹر کے زریعے رحیم یار خان کے جیل لے جایا گیا، اسکے بعد نصیر آباد انہیں ( city)تھانہ لے جایا جاتا ہے ، اس کے بعد ان کو crime branch لے جایا جاتا ہے، crime branch کے بعد Anti-Terrorist لے جایا گیا، , (Joint interrogation team ) (Joint Investigation Team).Jit آتا ہے ، شہید نواز جان white ہوکر، رہا ہوجاتا ہے، جب رہا ہوجاتے ہیں تو وہ بی ایل ایف کا حصہ بن جاتا ہے۔
قومی آزادی سے وابستہ ہوکر، وہ ہر محاذ پر فرض انجام دیتے رہے، ان کی محنت، بہادری، ایمانداری کی وجہ سے وہ بی ایل ایف کا ایک کمانڈر بن جاتا ہے، مشکے کے بالائی علاقے کو کمانڈ کرتا ہے، Aug 6 2015 کو ان کے کیمپ پر پاکستان آرمی کی شیلنگ ہوتی ہے، وہ اپنے ساتھیوں کو نکالنے کی کوشش کرتا ہے، وہ اپنے ساتھیوں کو نکالنے کے بعد فوج کی شیلکنگ میں شدید زخمی ہوجاتا ہے، زخموں کی تاب نا لاتے ہوئے، وہ جسمانی طور پر ہم سے جدا ہوجاتا ہے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔