شہیدانِ وطن کا خوں بہا کیا ہے؟ محمد خان داؤد

377

شہیدانِ وطن کا خوں بہا کیا ہے؟

تحریر :محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

جب کوئی بلوچستان کی دھرتی سے گم کر دیا جاتا ہے تو بلوچ مائیں کوئلوں کی ماند چیختی ہیں، بلبلا تی ہیں، رو تی ہیں، سینہ کوبی کرتی ہیں، ہاتھ آسماں کی طرف اُٹھاتی ہیں، اپنے جاننے والوں سے ملتی ہیں، منتیں کرتی ہیں، کسی کا دامن اور کسی کی جھولی تھامتی ہیں، اشک بہاتی ہیں، بند دروں کے ہل جانے پر اُٹھ بیٹھتی ہیں، ان کی نیند ماری جا تی ہے۔ وہ پو ری پو ری رات نہیں سوپا تیں۔ ان کی آنکھیں ہی کیا ان کے دل بھی اُجڑ جاتے ہیں۔ ان کے سپنوں کا خون ہوجا تا ہے۔ ان کے خواب ما رے جا تے ہیں، ان کی دکھی دلوں میں وسوے گھر کر جاتے ہیں۔ انہیں کچھ خبر نہیں رہتی پھر وہ اپنے بند گھروں سے نکل کر مسافر بن جاتی ہیں، بن منزل کے مسافر جن کی کوئی منزل نہیں ہوتی اور وہ ہوتی ہیں کہ سسئی کی ماند اپنے پیر زخمی کیے چلتی رہتی ہیں، چلتی رہتی ہیں، چلتی رہتی ہیں، وہ بھی کیا کریں بن پنہوں کے وہ کیسے جی پائیں۔

کیسی عجیب بات ہے جب ان ماؤں کی نیند ماری جا تی ہے تو ان کا سفر شروع ہوتا ہے
دکھ کا سفر!
درد سے بھرا سفر!
اشک بھری آنکھوں کا سفر!
پیروں کو شل کر جانے والا سفر!
انتظاری آنکھوں کا سفر
طویل صبر کا سفر
اِ س سے پوچھنا، اُس سے پوچھنا
اور پھر بے قرا ری کا سفر
بند دروازوں کے پیچھے آنکھوں کے ٹہر جانے کا سفر
ممتا کی موت کا سفر!
ان جانے خوف کا سفر
اب کیا ہوگا وہ لوٹے گا کہ نہیں کے بے یقینی کی کیفیت کا سفر!
صدا کا سفر!
پیچھے رہ جانے والی کتابوں کا سفر!
میلے کپڑوں پرانی چپلوں کا سفر
گھر کے ڈرائینگ روم میں لگی گم شدہ بیٹے کی یادوں کا سفر
بس سفر! سفر! سفر اور نا تمام سفر!
وہ مائیں چیختی ہیں، روتی ہیں، پریشان ہوتی ہیں، ایسے کہ جس کے لیے ایاز نے کہا تھا کہ
،،ویو وسکا رے میں مور مری
تھی کیڈیوں دانھوں ڈیل کرے!،،

وہ مائیں اپنی صدا وہاں تک پہنچانا چاہتی ہیں، جہاں اگر ان ماؤں کی صداؤں کی کوئی شنوائی نہ بھی ہو تو پھر بھی پیچھے کوئی یہ تو جان پائے کہ مائیں اپنے موروں کے لیے بے قرار ہیں اور کوئی جاکہ ان صاحب اقتدار لوگوں کو بتا پائے کہ بلوچستان کی ماؤں کی ممتا ماری جا رہی ہے، پھر اگر وہ بلوچ ماؤں کی مرتی ممتا کو نہیں لوٹا پائیں تو اتنا تو جان پائیں کہ بلوچ مائیں اپنی ممتا قتل کرا چکی ہیں۔

پر کوئی نہیں، کوئی نہیں، کہیں بھی کوئی نہیں، بلوچ مائیں گم شدہ بلوچ بیٹوں کی مائیں، اسیران دھرتی کی مائیں، سوزانِ عشق کی مائیں، اپنی اپنی سی مائیں، پیاری پیا ری سی مائیں، معصوم معصوم سی مائیں، اپنے کانپتے بوڑھے ہاتھوں میں ان گم شدہ بچوں کی پرانی تصویریں لیے سفر میں نکلتی ہیں، رو تی ہیں، چیختی ہیں، چلاتی ہیں اور اپنا دامن پھیلائے ان کی آزادی کی بھیک مانگتی ہیں پر ان ماؤں کی کہیں پر کوئی شنوائی نہیں ہوتی اور ان ماؤں کی بلند پربند صداؤں کی ایسی کیفیت ہو تی ہے جس کے لیے غالب نے لکھا تھا کہ
،،سینے کا داغ ہے، وہ نالہ کہ لب تک نہ گیا

وہ داغِ جدائی، وہ داغِ درد ان ماؤں کی زبانوں سے نکل کر ان ہی زبانوں میں مقید ہو جاتا ہے، وہ آگے سفر ہی نہیں کرتا، وہ داغ سینے آگے سفر کرے بھی تو کیسے؟ آدھے سے زیادہ بلوچستان تو جانتا ہی نہیں کہ ان بوڑھی ماوں کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ سفید سروں، کانپتے ہاتھوں اور جھریوں زدہ چہرے سے ان روڈوں پر سفر کر رہی ہیں، وہ گھروں میں کیوں نہیں بیٹھ جاتیں؟

ان ماؤں کو بہت دکھ ملا ہے، یہ ایسا دکھ ہے کہ اس دکھ سے فتنہ برپا ہو سکتا ہے، پر معصوم مائیں، باپردہ مائیں، کسی فتنے کا سبب کیسے بن سکتی ہیں، انہیں تو بلوچستان کے شہروں کے نام بھی نہیں معلوم اور فتنہ تو وہ برپا کرے جو مائی مختاراں ہو، وہ تو سیدھی مائیں ہیں معصوم مائیں
،،نام کا میرے ہے، جو دکھ کہ کسی کو نہ ملا
کام میں میرے ہے، جو فتنہ کہ برپا نہ ہوا!،،
ایک مائیں گم شدہ بچوں کی متلاشی ہیں
اور ایک مائیں اس لیے فکر مند ہیں کہ ان کے بچے چائینا کے شہر وہان سے واپس کیوں نہیں لائے جا رہے؟

جن ماؤں کے بچے محفوظ سفر کرکے محفوظ ملکوں کے محفوظ شہروں کے محفوظ تعلیمی اداروں میں ہیں اور بس وبا کی وجہ سے نہ تو اپنے ملک آسکتے ہیں اور نہ ماؤں سے مل سکتے ہیں، جب بھی وہ مائیں بے چین ہیں، ان ماؤں کی روتی تصاویر میڈیا کی زینت بن چکی ہیں، جن میں وہ اشک بار ہیں وہ مائیں اپنے بچوں کو واپس بلانے کے لیے کورٹ سے رجوع کر چکی ہیں جب کہ ان ماؤں اور ان کے بچوں کا سب کچھ ٹھیک ہے پر
پھر بھی وہ مائیں بے قرار ہیں۔
پر وہ مائیں کہاں جائیں جن کا کچھ بھی ٹھیک نہیں
جن کے بچے اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں
جن کے بچے اپنے ملک میں محفوظ نہیں
جن کے بچے اپنے شہروں میں محفوظ نہیں
جن کے بچے اپنے شہر کے تعلیمی اداروں میں محفوظ نہیں
وہ مائیں بھی اشک بہاتی ہیں، پر ان ماؤں کے اشک کوئی نہیں دکھاتا۔

ان ماؤں کی آنکھوں سے بھی اشک پانی کی طرح بہتے ہیں، پر ان ماؤں کی اشکوں بھری تصویر کسی میڈیا کی زینت نہیں بنتی، وہ مائیں بھی کورٹ سے رجوع کرتی ہیں، پر ان ماؤں کی کہیں بھی کوئی شنوائی نہیں ہوتی

اب ایک ایسی ہی ماں کا سفر شروع ہونے جا رہا ہے، اب ایک ایسی ہی بیوی کا سفر شروع ہونے جا رہا ہے۔ اب ایک ایسا ہی سفر اس بہن کا شروع ہونے جا رہا ہے، جو اپنے دانشور بھائی کی تصویر لیے پہلے بہت روئیگی۔ پھر کسی کے سامنے اپنا دامن پھیلائے گی، پھر کسی کا دامن تھامے گی جب کچھ نہیں ہوگا، تو پھر اس کا ایک نیا سفر شروع ہوگا، جو دردوں کا سفر ہوگا، جس میں سوائے دردوں کے اور کون ہوگا اس کے ساتھ؟
بس بہت سے آنسو
دردیلی دل!
گمشدہ بھائی ثناء سیاد کی اک پرانی تصویر
اور بس سفر!سفر!سفر!
اور وہ مائیں، بیٹیاں، محبوبائیں اپنی پیاروں کی تصویر لیے سب سے یہی فریاد کر رہی ہیں کہ
،،مُحابا کیا ہے، میں ضامن، اِدھر دیکھ
شہیدانِ علم وہ وطن کا خوں بہا کیا ہے؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔