رکاوٹیں و ڈاکٹر ماہ رنگ – عرفان خان بلوچ

1015

رکاوٹیں و ڈاکٹر ماہ رنگ

تحریر: عرفان خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ہر کسی کی اپنی قیامت ہوتی ہے۔ جب گھاس کے تنکے پر بارش کی بوند گرتی ہے تو تنکے پر بیٹھی چیونٹی یہ سمجھتی ہے کہ قیامت آگئی اور کائنات فنا ہونے لگی ہے-

درحقیقت ایسی چیونٹی اور ایسے لوگوں کی زندگی بہت قلیل ہے جو چند رکاوٹوں کو قیامت سمجھتے ہیں اور ایسی قیامت کے ڈر سے مزاحمت نہیں کرتے.
” مزاحمت زندگی ہے ”
جو مزاحمت کرتے ہیں ان کی زندگی طویل ہے

کچھ سال قبل کچھ نامعلوم جو معلوم ہوتے ہیں، افراد نے عبدلغفار نامی ایک شخص کی لاش کو یہ سوچ کر انکی بیٹی کو پیش کیا کہ یہ عورت ذات ہے باپ کی لاش کو رکاوٹ سمجھ کر خاموش بیٹھ جائے گی مگر وہ اس بات سے ناواقف تھے کہ رکاوٹیں ڈاکٹر ماہ رنگ کی غذا ہے.

نامعلوم جو معلوم ہوتے ہیں افراد نے عورت کو ہمیشہ عورت کے روپ میں ہی دیکھا اور اسے کمزور اور ڈرپوک قرار دیا، مگر ان لوگوں نے کبھی عورت کو ڈاکٹر ماہ رنگ کے روپ میں نہیں دیکھا- کیونکہ عورت جب نزاکت چھوڑ کر مضبوطی تھام لے تو اس جیسا پتھر کوئی نہیں ہوتا ۔

” زنجیرِ قفس ٹوٹ بھی جائے تو پرندے
صیاد کے نوچے ہوئے پر یاد رکھتے ہیں “

باپ کی لاش کو رکاوٹوں کا نام دے کر ڈاکٹر ماہ رنگ نے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے، کچھ حصول کے لیے گھر سے رخصت ہوئی تو انکی وجہ سے انکے آس پاس کے اپنے، ہمسائے، پرائے، پریشان تھے انکی پریشانی بجا تھی کیونکہ ہمارے اس لنگڑے معاشرے میں اک عورت گھر سے رخصت تب ہوتی ہے جب اسکی شادی ہوتی ہے.

اور یہ اک حقیقت ہے رکاوٹیں ہمیں کسی خاص مقصد یا خاص سفر کے لیے تیارکرتی ہیں۔ جس طرح صبحِ کاذب کی ہوا کی نمی پھولوں اور پودوں کی شاخوں کو تروتازگی عطا کرتی ہے.

لیکن جب ڈاکٹر ماہ رنگ گھر سے رخصت ہوئی تو انکے پاس ماں کی دعائیں اور شہید باپ کی کچھ خوبصورت یادیں تھیں.

ماں کی دعائیں اور شہید باپ کی خوبصورت یادوں کو سامنے رکھتے ہوئے، اپنی مُردہ زندگی کے بے رنگ شب و روز سے، اس ٹہری ہوئی زندگی سے اور اس مُردہ معاشرے سے نکل کر بھاگتی ہوئی زندگی اور اک زندہ معاشرے میں رہنے کیلئے سفر کا آغاز کیا۔

” ہم اکیلے ہی چلے تھے جانب منزل مگر
ہمسفر ملتے رہے اور کارواں بنتا گیا”

اس سفر میں ان کے سامنے ہزاروں رکاوٹیں کھڑی ہوگئیں.
رکاوٹوں پر ہنس کر کہتی.
“رکاوٹیں ڈاکٹر ماہ رنگ کی غذا ہے.”

‏جو چراغ صرف اپنے لئے جلتا ہے۔ وہ آگ کے سوا کچھ نہیں، اور جو چراغ دوسروں کے لئے جلتا ہے
وہ روشنی ہے، نور ہے – شعور کا ظہور ہے.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔