بلوچ مرنا ہی کیوں جانتے ہیں؟
تحریر: میار بلوچ
دی بلوچستان پوسٹ
گذشتہ دنوں سندھ کے مرکزی شہر میں واقع اسٹاک ایکسچینج پر ایک حملہ ہوا، جس میں چار حملہ آور سمیت متعدد لوگوں کی مارے جانے کی اطلاع اخباروں کی زینت بنی۔ پھر یہ خبر دیکھتے دیکھتے کراچی سے بلوچستان اور پھر پوری دنیا کے میڈیا ہاوسز میں پھیل گئی کیونکہ حملہ جس مقام پر ہوا تھا، وہ مقام انتہائی اہمیت کا حامل اور پاکستانی معیشت کی باگ ڈور چلانے میں اہم کردار ادا کرنے والا کراچی اسٹاک ایکسچینج تھا۔
اب سوچنے اورسمجھنے کی بات یہ ہے کہ ایک انتہائی حساس علاقے کا چناؤ جہاں اہم ترین عمارتیں جن میں اسٹیٹ بینک، پولیس ہیڈکوارٹز اور دیگر ایسی عمارتیں شامل ہیں جنکی سیکیورٹی ہمیشہ ہائی الرٹ اور اس شاہراہ پر حملے کی نیت سے آنے کا مطلب ہی موت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ لیکن اس کے باوجود چار بلوچ مزاحمت کار ایک گاڑی میں سوار ہوکر پاکستانی اسٹاک ایکس چینج پر حملہ آور ہوتے ہیں اور وہاں موجود پولیس اہلکاروں سے دوران مقابلہ لڑتے ہوئے شہید ہوجاتے ہیں اور اپنی موت کے ساتھ بہت سے سوالات بھی چھوڑ جاتے ہیں۔
کراچی اسٹاک ایکس چینج میں مارے جانے والے ان چاروں بلوچ مزاحمت کاروں کو جنہیں بلوچ لبریشن آرمی نے “فدائین”کا نام دیکر تصاویر شائع کیے ہیں۔ کسی نے انکو اپنا ہمدرد مسیحا اور نجات دہندہ کہہ کر سلام پیش کیا تو کسی نے کہا کہ یہ دہشت گرد اور بیرون ممالک کے ایجنٹ ہیں اور پنجابی میڈیا، اسٹیبلشمنٹ اور فوج نے را کا ایجنٹ اور مسنگ پرسنز کے نام سے ناکام رنگ دینے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی عافیت اسی میں جانا۔
کراچی اسٹاک ایکسچینج پر چار حملہ آوروں میں سے ایک کی شناخت سلمان حمل کے نام سے ہوئی ہے۔ سلمان حمل جو بلوچی زبان کا نوجوان شاعر تھا، سلمان حمل جو اردو اور بلوچی میں اپنے تجزیات اور کالم کے ذریعہ بلوچ قومی تحریک اور اس سے منسلک مسائل پر ہمیشہ لکھا کرتا تھا۔ سلمان حمل جس سے ملاقات نہ ہوتے ہوئے بھی ایک پہچان ہوگئی تھی، جس کی وجہ اس کے تحاریر، شاعر ی اور ادب سے قربت تھی۔
سلمان حمل سمیت دیگر تین مزاحمت کار جنکے نام لاپتہ افراد کے لسٹ میں تو کبھی شامل نہ تھے۔ لیکن انہیں فدائین یا خودکش حملہ کرنے جیسے سنگین اقدام اٹھانے پر کن عوامل نے مجبور کیا ؟ یہاں اہم ترین نقطہ یہ بھی ہے کہ بلوچ نوجوان مذہبی جنونیت یا جنت و حور کی خواہش لیکر مزاحمت نہیں کررہے ہیں اور نہ ہی انکے خود کش حملوں کے بعد انکے خاندان کو لاکھوں اور کروڑوں روپے کی صورت میں مل رہے ہیں۔ بلوچ نوجوان جو سیکولر سماج اور سائنٹیفک سیاسی اصولوں پر کاربند ہوکر جدوجہد کررہے ہیں تو ان کو کس طرح سے اس قدر برین واش کیا جاسکتا ہے؟ کیا ان نوجوانوں سے بلوچ قوم سے بلوچ بہنوں سے بلوچ اسیران سے ماورائے عدالت قتل کئے گئے بلوچوں سے یہ پوچھا کیا گیا ہے کہ آپ مرنا ہی کیوں چاہتے ہو؟
کیا آپ میں جینے کی چاہت ختم ہوچکی ہے؟ کیا آپکو مزاحمت کرنے سے سکون ملتی ہے؟ کیا آپ کو گولی کھاکر یا تشدد کے بعد قتل ہونے میں سکون ملتا ہے؟ یا آپ کے پاس کوئی ایسی وجہ موجود ہے جس کی خاطر آپ مرجانے کی اس انتہائی حد تک چلے جاتے ہیں کہ جہاں موت خود بھی مارتے وقت خوف میں مبتلا ہوتا ہو۔
یقیناً بلوچستان کا ہر ایک نوجوان، بزرگ، خواتین اور بچہ یہی جواب دیگا کہ یہ تشدد یہ مزاحمت یہ جنگ یہ حملے یہ آگ یہ سب تو ریاست کے ہی پیدا کردہ ہیں۔ ہم تو صرف دفاع کرتے ہوئے اپنی جوانیاں گنوا رہے ہیں۔ دفاع اپنی سرزمین کا، اس کے وسائل کا، بلوچستان میں موجود ان قدرتی معدنیات کا جنہیں پاکستانی ریاست و فوج چین و دیگر ممالک کو کوڑیوں کے دام فروخت کررہی ہے اور بلوچستان کے حصے میں پانی، بجلی، گیس سمیت زندگی کی کوئی بھی بنیادی سہولیات میسر نہیں آئی ہیں۔ اور اگر کوئی شخص سیاسی آزادی اور سیاسی جدوجہد کی بات کرتا ہے تو ان سیاسی ورکروں ،ڈاکٹروں،استادوں سمیت بچوں اور عورتوں کو چن چن کر یکے بعد دیگر بلوچستان کے کونے کونے سے لاپتہ کردیا گیا، جن میں سے کثیر تعداد میں بلوچ رہنماوں اور سیاسی ورکروں کو قتل کرکے وہ تمام سیاسی و اخلاقی دروازے بند کردئے گئے، جو ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ اور اب جو باقی ماندہ لوگ ہیں جو روزانہ بلوچ بہنوں کے آنسووں سے تر دوپٹّے دیکھتے ہیں جو روزانہ بلوچ ماؤں کو سڑکوں پر احتجاج کرتے دیکھتے ہیں اور پھر اس ریاستی دہشتگردی اور ظلم و بربریت میں اضافہ دیکھتے ہیں تو وہ اپنے غصے کو علم و شعور کے دامن میں ڈال کر وہ قدم اٹھانے پر مجبور ہوتے ہیں جس کو انتہائی قدم کہا جا سکتا ہے۔
لیکن اس تمام عمل کو صرف دہشت گردی کا نام دیکر یا کسی ملک کا ایجنٹ قرار دیکر اس اہم ترین سوال و نقطہ سے نظر نہیں چرایا جاسکتا۔ وہ اہم ترین نقطہ انتہاہی ریاستی دہشتگردی و ریاستی تشدد ہے۔ وہ ریاستی تشدد جس کے حوالے سے مجید برگیڈ کا بنیاد رکھنے والے بی ایل اے کے سابقہ سربراہ اسلم بلوچ نے الجزیرہ ٹی وی کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ “ یہ جنگ ہمارے ہاتھوں سے زیادہ پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں میں ہے اور یہ پنجابی آرمی کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اسکو کس طرف لیجانا چاہتا ہے۔ وہ زیادہ بلوچ پر پریشر ڈالے گا, زیادہ دبائے گا ہم زیادہ ابھریں گے۔ وہ زیادہ بے رحمی کریگا عورتوں اور بچوں کو مارے گا، پھر ہمیں بھی مجبوراً سخت قدم اٹھانا پڑیگا۔”
یہاں اس بات کو سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے )مجید برگیڈ کے بلوچ مزاحمت کاروں نے ابتک انہی ٹارگٹ کو نشانہ بنایا یا جن اہداف پر حملہ آور ہوئے ہیں ان میں عام عوام کی نقصان و ہلاکت نہ ہونے کے برابر رہی ہے اور ان مزاحمت کاروں کا مقصد اپنے پیغام کو دنیا تک پہنچانا مقصود ہوا ہے۔
مجید برگیڈ کے حملوں اور طالبان کے خودکش حملوں میں ایک اہم اور واضح فرق یہ بھی ہے کہ اب تک بلوچ مزاحمت کاروں کے حملوں میں عام لوگوں کو نشانہ نہیں بنایاگیا ہے بلکہ نشانہ ہمیشہ ہی پاکستان اور چین کے مشترکہ مفادات ہی رہے ہیں۔
یہاں پاکستانی ریاست کی سفاکیت بربریت اور بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے کی جانے والی کاروائیوں میں بھی ایک بہت ہی واضح فرق جو دیکھا گیا ہے، وہ یہ ہے کہ کراچی اسٹاک ایکسیچینج کے اردگرد موجود عام عوام کو بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے نشانہ نہ بناکر ہوئے صرف اور صرف اسٹاک ایکسچینج کے سیکیورٹی پر تعینات بندوق بردار پولیس اہلکاروں سے ہی لڑتے ہوئے اپنے نظریہ پر قربان ہوگئے۔
اس حملہ کے بعد سے کافی پروپیگنڈہ پاکستانی میڈیا ہاوسز اور انکے پالے ہوئے زرخرید لوگوں کی جانب سے اس حملہ کے حوالے سے اور بلوچ مزاحمتی تحریک کیخلاف کی گئی جس میں حملے کو دہشتگردی کا حملہ گردانتے ہوئے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن بی ایل اے مجید برگیڈ سے تعلق رکھنے والے مزاحمت کاروں کے ویڈیو پیغامات اور انکے حملے سے متعلق تفصیلات نے نہ صرف انکے مشن کی نوعیت کو واضح کردیا بلکہ یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ بی ایل اے مجید برگیڈ کے “فدائین” حملہ آور عام عوام کو بلکل بھی نقصان نہیں پہچانا چاہتے تھے، وہ تو اپنے ہدف اسٹاک ایکسچینج پر حملہ کرکے دنیا کو یہ پیغام پہچانا چاہتے تھے کہ آپ (اقوام عالم) کی خاموشی کی وجہ سے پاکستانی ریاست و چین کی غنڈہ گردی، وحشت، بلوچ نسل کشی سمیت بلوچ قومی وسائل کے استحصال میں روزانہ کی بنیاد میں شدت آنے سمیت قومی غلامی کی زنجیروں کو توڑتے ہوئے ان تمام غیر انسانی اور غیر قانونی بربریت کا جواب بلوچ نوجوان اپنی زندگیاں قربان کرکے دینگے اور یہ قربانیاں اُس وقت تک جاری رہینگے، جب تک پاکستان اور چین بلوچستان سے اپنی فوج واپس نہیں کرلیتے اور بلوچ وسائل کا استحصال بند نہیں کردیتے۔
دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔