بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے احتجاج کو 4026 دن مکمل ہوگئے۔ این ڈی پی کے سنیئر رہنما ثناه بلوچ اور بی ایس او پجار کے ابرار زبیر اور ساتهیوں نے لاپتہ افراد کے لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔
وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ پرامن جدوجہد صرف بلوچ کے لئے نہیں بلکہ ہر اس فرد اور قوم کیلئے ہے، ہماری آواز ہر اس انسان کے لئے ہے جو ضمیر کا قیدی بن چکا ہے مگر اسے احساس نہیں، اس معاشرے میں رہنے والے ہر انسان مرد اور زن کو سوچنا چاہیے کہ آج جس جبر اور ظلم کا شکار بلوچ قوم ہے وه بهی اس کا شکار ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ سب انسانی حقوق کی پامالی کے زمرے میں آتے ہیں مگر افسوس ہے کہ یہ بسنے والے دیگر اقوام، سول سوسائٹی اور میڈیا کو کچھ دکهائی نہیں دیتا اگر دکهائی دیتا ہے تو صرف اور صرف یہی کہ جناب یہ غدار ہیں اور ان کا قتل عام کرنا کوہی مسئلہ نہیں ہے۔
ماما قدیر بلوچ نے مزید کہا کہ یہ بتاو غدار کیا ہے اس کے معنی کیا ہیں، بلوچ ایک الگ قوم الگ ثقافت، تشخص کا مالک ہے۔ جب وه اقوام متحده کی بناہی ہوہی قوانین کے تحت اپنی آفاقی اور دنیاوی حق کی بات کرتی ہے تو آپ اسے اٹها کر غائب کرتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ یا مسخ شده لاشیں پهینکتے ہیں، دیہاتوں پر بمباری کرتے ہیں، لوٹ مار اور خواتین اور بچوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور نوجوانوں بزرگوں کو لاپتہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں یہ غدار ہیں اسی آڑ میں آج بلوچ سرزمین کا ایک ایک انچ لہو لہان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہر گهر انسانی حقوق کی ریاستی پامالی کا شکار ہے اور بلوچ کی نسل کشی کو آپ غداری کے لبادے میں ڈالے انسانی حقوق کی دهجیاں اڑا رہے ہیں۔ بلوچ نے کهبی بهی کسی قوم کے حقوق چهیننے کی بات نہیں کی اور نہ ہی کسی کو کچھ کہا، ہم تو صرف لاپتہ افراد کی بازیابی مانگ رہے ہیں آپ انسانیت کی دهجیاں اڑا رہے ہیں اور پهر دنیا کی خاموشی کے ساتھ اس سماج اور اس کے پڑهے لکهے لوگ بهی خاموش اور آپ ہماری انسانی حقوق کے زمرے سے خارج کر رہے ہیں۔